اسلامی نظام اور عصرِ حاضر
Article by Bint e Hassan
خطاب بہ جوانانِ اسلام
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نےہم کو دے مارا
کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی پہچان اور شناخت اس کی تاریخ اور تہذیب میں پوشیدہ ہوتی ہے ،تاریخ میں اس کے آباء واجداد کے کارنامے اور ماضی کے عروج وزوال کی داستاں ہوتی ہے اور تہذیب میں زبان اور ماضی کی شناخت ہوتی ہے اور اگر کوئی بھی قوم اپنی تہذیب کو یا تاریخ کو فراموش کرتی ہے تو اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے، موجودہ دور میں عین یہی صورتحال ملت اسلامیہ کو درپیش ہے، اسلام کی مختصر مگر عظیم چودہ سو سالہ تاریخ نے وہ سنہرے نقش چھوڑے ہیں جو شاید تاریخ انسانیت میں کسی قوم نے چھوڑے ہوں اور شاید یہ حقیقت ہے کہ انسانیت کی بنیاد ہی اسلام کی دنیا جہاں پر عکاسی ہے۔
آج ہم وہ عکاسی وہ عکس چھوڑ کر ایک نامعلوم سائے کے پیچھےبھاگ رہے ہیں، یاد رہے سایہ اندھیرا ہوتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔
مختصراٙٙ ہم کیوں ایسے ہو گے؟ ایسا ہم میں سے بہت کم لوگ سوچتے ہیں۔ عصرِ حاضر کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ سوال لوگوں سے کیا جائے کہ موجودہ دور میں اسلامی نظام کی راہ سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو ظاہر ہے کہ لوگوں کا جواب بھی جدا جدا ہو گا۔ کوئی کہے گا کہ غیر مسلم حکومتیں اسلامی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں تو کوئی غیر مسلم تنظیموں خصوصا تنصیری تنظیموں کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔ کسی کا جواب ہوگا کہ مسلمانوں کے آپسی اختلافات اور ان کی تفرقہ بازیاں نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ غرضیکہ مختلف لوگوں کے مختلف جواب ہوں گے اور یہ تمام جوابات بھی اپنی جگہ پر صحیح ہیں کیونکہ ہر انسان کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے۔
لیکن میرے خیال میں دور حاضر میں اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم مسلمان بذات خود ہیں:علماء سو، حکمران اور خود عوام ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک ہوتے ہوئے ہر طرف مسلمانوں کا لہو ہی نظر آتا ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ نابلد اور نااہل حکمران ہیں۔
یہ میری اپنی رائے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس سے متفق نہ ہوں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس سے چاہ کر بھی نظریں نہیں ہٹائی جا سکتیں، کیوں کہ ہم آج کے دور میں اسلام سے کوسوں دور ہیں اور اسلام کو اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر پارہے۔ سیاسی، اقتصادی، حکومتی اور اجتماعی کسی بھی سطح پر اسلام کی مکمل تنفیذ بالکل نہیں ہے۔
بلکہ اب ایک رواج عام ہوتا چلا جا رہا ہے ،اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال سیاسی لیڈر ہیں۔ اگر کسی سیاسی پنڈت یا سیاسی لیڈر کا منجن نہیں بکتا تو وہ محض سادہ لوح مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اسلام کا غلط تصور، غلط اسلامی نظریات عوام کے ذہنوں میں انڈیلنا شروع کر دیتا ہیں، جس سے کافی لوگ ان بچھوں کے بچائے جال میں پھنس جاتے ہیں اور وہ مگرمچھ کی طرح جب چاہتے ہیں پھر اسلامی شعائر کا ذاتی استعمال کر کے اقتدار بچانا شروع کردیتے ہیں۔
سیاسی لیڈروں نے اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ان کی عملی زندگیوں کا جائز لیا جائے تو کسی کو نماز ادا کرنے کا طریقہ نہیں آتا، کسی کو قرآن پاک کی سب سے چھوٹی سورة نہیں آ رہی ہوتی، کسی کو جنازہ پڑھنا نہیں آتا، کسی کو قرآنی آیات صحیح سے ادا کرنا نہیں آتیں، حتی کہ کسی کو کلمہ طیبہ تک نہیں آتا، تو سوچیں زرا پھر ایسے لوگ اسلام کا نام استعمال کرکے کیسے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور ملک و ملت کے ساتھ ساتھ اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانتے ہیں ۔
زیادہ دور مت جائیں سابق حکومت کا جائزہ لے لیں اور اپنے ملک و ملت کا محاسبہ کریں۔ سب سے زیادہ نقصان اسلام کو پہنچانے والی قومِ یوتھ اور ان کے نام نہاد لیڈر ہیں۔ دشمنانِ اسلام کی راہیں ہموار کرنے والے نام نہاد سیاسی لیٹرے ہیں جنہوں نے دشمن کو اتنی سہولیات فراہم کیں، کہ دشمن اپنے پورے وسائل،قوت و طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اور تحریری و تقریری مواد سے سے اُمتِ مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذتِ گناہ اور گناہِ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے جن میں ان کا پورا پورا ساتھ دینے والے نام نہاد نیازی اور عرب ممالک ہیں۔
گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طور پر کیا کرتے تھے۔ ﷲ تعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے، لیکن سب سے سخت ترین عذاب قومِ لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔ اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرِعام کیا کرتے تھے۔ قومِ لوط کے لوگوں کی گفتگوئیں، ان کی حرکات و سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے، تب وہ غضبِ خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔
آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیا کے لبادے سے نا آشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوسِ نفس کی ماری پرکشش اورفریب زدہ سیکولر تہذیب میں داخل ہو گا، وہ ’’إِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ‘‘ کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قومِ لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاً ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے، جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں، اور جو اس نقصان سے بچنا چاہیے، اس کے لیے کل انبیاء کا طریقۂ حیات موجود ہے، جسے بسہولت حیاتِ حیاداری کا نام دیا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسانوں سے حیا ہو اور روزِ محشر اﷲ تعالیٰ بزرگ و برتر کے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا ہو۔
دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتا ہے، جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے، لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں، لیکن ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں۔ الحمد للہ۔
اختتام پر میں دورِ حاضر کے مجدد الشیخ الحدیث علامہ حافظ خادم حسین رضوی الرحمہ علیہ کے لیے دعا گو ہوں جنہوں نے امہ مسلمہ کے جوانواں کی بوسیدہ روح کو جھنجھوڑا اور بتایا
اے نوجوانانِ مسلم اٹھ اور سوچ
کبھی اے نوجواں مسلم!! تدبر کیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا اک ٹُوٹا ہوا تارا
بابا جی آپ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو صحیح سمت دکھائی ،آپ کی قبر پر ربِ کائنات کی کڑوڑوں رحمتیں و برکتیں نازل ہوں۔
آمین یا رب العالمین
تحریر: بنت حسن