عشقِ امیر المجاہدین
Article by Dua Taiba
سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو میرا شعور اس زمانے میں بیدار ہوا جب قسمتِ مظلوماں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا۔ دھڑا دھڑ جلسے،جلوس، ہنگامےاور گہماگہمی، آخر کار الیکشن کا دن آیا، ووٹ ڈالے گئے، نتیجہ آیا اور بائیس سال کی محنت جیت گئی۔
کچھ دن دھاندلی اور سلیکشن کے نعرے لگے پھر مکمل خاموشی۔
اب عوام تھی اور مہنگائی کے ڈنڈے، مظلومین تھے اور موٹے موٹے پیٹوں والے ظالم ۔ لوگ رو رہے تھے ۔ بڑے بڑے رئیس گھبرا گئے۔ امیر زادے سفید پوش اور سفید پوش فقیر بننے پر مجبور کر دیے گئے۔ وہ نوکریاں، مکان ، ترقی جسکے خواب پچھلے بائیس سال سے دکھائے جا رہے تھے اب بھی خواب ہی تھے ۔ جہاں کچھ عرصہ قبل سبز باغ دکھ رہا تھا وہاں تو چند سرو کے بھدے بوٹے تھے۔
پھرعوام نے آنکھیں کھولیں ۔ شعور بیدار ہوئے اور ایک نعرہ جس نے حاکمِ وقت سے لے کر صلیبی مکاروں تک کو لرزا کر رکھ دیا، وہ اٹھا اور چھا گیا۔
عوام نے حقیقت کو بالآخر تسلیم کرلیا کہ قوم کا مستقبل دین کے ساتھ مشروط ہے مگر پھر ایک دن محبانِ اسلام و پاکستان پر قہر ٹوٹ پڑا ، وہ لوگ جو محبینِ اسلام و پاکستان کے پرچم تلے جمع ہوئے تھے، خدا نے انہیں ایک عظیم آزمائش میں مبتلا کر دیا۔
پہلے تو کسی کو یقین نہ آیا ہر دل اس اندیشے کے ساتھ دھڑک رہا تھا کہ شاید یہ بات غلط ہو، مگر غلط کچھ نہ تھا پیارے بابا جی علامہ حافظ شیخ الحدیث خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ واقعی ہمیں چھوڑ کر جا چکے تھے ۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
تقدیر نے بڑے بڑے جگر والوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ موت برحق ہے مگر ہم عاشق اس برحق امر کے متحمل نہ ہو سکے
بقول شاعر
اے کاتبِ تقدیر کیا خوب تھی تیری پسند
پھول بھی وہ چنا جو سارے باغ کو ویران کر گیا
ہم سے ایک سچا عاشقِ رسولﷺ بچھڑ گیا لیکن ہم ان کی قدر نہ کر سکے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی وہ رات اُمتِ مسلمہ پر قہر بن کر ٹوٹی ۔ بابا جی سے محبت کرنے والے ، بیرون ملک بسنے والے، پاکستان کے باسی، المختصر ہر کوئی دل کے ٹوٹے ہاتھوں میں لیے دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا۔ بلاشبہ مایوسی کفر اور شکوہ گناہ ہے مگر بذاتِ خود بندۂ ناچیز نے خدا سے شکوہ کیا کہ یاخدا! ہمارے امیرالمجاہدین کی جگہ میری روح قبض کرلی جاتی، بحرحال وہ کرب صرف ایک تحریک کا سچا عاشق و قدردان ہی محسوس کر سکتا ہے۔ باقی کوئی شخص اس تکلیف کے زرے تک بھی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ یہ بیان سے باہر کا کرب ہے۔ خیر پھر جب سپردِ خاک کرنے کی باری آئی تو یوں لگ رہا تھا کوئی اور مخلوق بھی ہے جو اس پاک روح کے استقبال کے لیے آئی ہے اور انسانوں کے سمندر کو تو جدید دور کی جدید ٹیکنالوجی بھی احاطے میں نہ لا سکی، بابا جی ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے مگر انکی یادیں اور انکی باتیں رہ گئیں دل ٹوٹ گئے، زبانیں گنگ ہو گئیں۔ وہ نفوس جو کل تک اطمینان سے زندگی گزار رہے تھے آج ملول و مضطرب تھے۔اور پھر تسلی بھی کون دیتا یہاں تو ہر شخص یکساں کرب سے گزر رہا تھا۔
اس واقعے کو ایک سال سے زیادہ وقت بیت گیا مگر اب بھی لکھتے ہوئے آبِ چشم ورق گیلے کر رہا ہے۔ اس ہستی سے
محبت ایسی ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی نہ انکا خلا دنیا کی کسی چیز سے پر نہیں کیا جا سکتا مگرانکے مشن پر چلنے والے مجاہدین کو لاکھوں سلام جن کے قدم ڈگمگائے نہیں اور جو بڑھتے ہی گئے سعد بھائی کے سنگ
پیارے سعادتوں والے سعد بھائی کے سنگ
اللہ پاک ہمیں بھی اس مشن پر چلنے، ثابت قدم رہنے اور دین کو تخت پر لانے کی کوشش کی توفیق عطا فرمائے آمین!
تحریر: دعا طیبہ
بابا جی خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات سے جو خلا بنا ھے وہ شاید مرتے دم تک پر نہیں ہوگا۔۔۔ابھی تو ان سے ہم نے عشق مصطفی کے ترانے بھی سننے تھے ۔۔۔
Aameen 😓