سادات کی تعظیم و تکریم
Article by Aqsa Hassan
مجھ کو سادات کی نسبت کے سبب میرے خدا
عاجزی دینا تکبر کی ادا مت دینا
ایک ایسا موضوع جس میں بہت سے پہلو آپ کے بند ذہن کے پردوں پر جگمگائیں گے لیکن میں یہاں چند باتیں ہی کروں گی کیوں کہ قارئین جلد اوقات جاتے ہیں۔
سید زادہ کون ہوتا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے ہیں انھیں سید کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو الفاظ اپنے اندر بہت وسیع ذخیرہ لیے ہوئے ہے، جہاں لفظ اپنی خوش آہنگ آوازوں، مختلف زبانوں میں اپنی معنی اور متنوع لسانی خصوصیات کے ساتھ زندہ اور متحرک نظر آئیں گے۔
میں تحریک لبیک پاکستان کی ایک ادنیٰ سی ادنیٰ سی کارکن ہوں، میرے سمیت سب لوگ جو اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ان کےاحساس اور جذبات اس تحریک اس طرح چپک سے گئے ہیں کہ زرا سی کوئی گراں خاطری بات ہوتی ہے تو تکلیف رگ و جان میں دوڑتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم باقی لوگ کس نسبت سے جڑے کس نسبت سے آئے لیکن میں یہاں بات کروں گی ،ان کی جو ہم سب سے رتبہ و مقام میں افضل ہیں، جنہوں نے امیر المجاہدین فنا فی الرسول کی آواز پر اس طرح لبیک کہا کہ واقعی ہی آلِ رسولﷺ ہونے کاحق ادا کر دیا، بتاتی چلوں حال ہی میں میرے والد گرامی انھیں مل چکے ہیں، بتاتے ہیں بہت ہی خوبرو، سنجیدہ اور محبت و خلوص سے نوازنے والی شخصیت کے مالک ہیں ۔ جی بالکل سید احمد بخاری شاہ صاحب کی بات ہو رہی ہے۔
آپ کے گھر کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ،یہاں تک نااہل، جاہل لوگوں نے سید زادیوں کے چہروں مبارک پر تھپڑ تک رسید کیے لیکن کوئی چیز انھیں جھکا نہ سکی۔
بہت دیر پہلےزمانہ طالب علمی میں ایک واقعہ ایک کتاب میں پڑھا تھا وہی لکھ رہی ہوں، باقی تو کسی بات کا اثر ہونے سے رہا شاید پھر آپ کی عقل میں بات گھس جائے۔
بات زرا لمبی ہو جائے گی لیکن بات ہے بڑے کام کی۔
پرانے شہر بریلی کے ایک محلہ میں آج صبح ہی سے ہر طرف چہل پہل تھی۔ دلوں کی سر زمین پر عشق رسالتﷺ کا کیف اور سرور کالی گھٹاؤں کی طرح برس رہا تھا۔ بام و در کی آرائش اور گلی کوچوں کا نکھار (یعنی گھروں کے باہر سے اور گلی محلوں کو بڑی شان اور شوکت سے سجایا جا رہا تھا) رہگزاروں صفائی اور دور دور تک رنگین جھنڈیوں کی بہار ہر گزرنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ بالاخر چلتے چلتے ایک راہ گیر نے دریافت کیا یہاں کیا ہونے والا ہے؟ کسی نے جواب دیا دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیت، دین کے مجدد اہل سنت کے امام فنافی العشق رسولﷺ ،اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تشریف لانے والے ہیں۔ انہیں کے خیر مقدم میں یہ سارا اہتمام ہو رہا ہے۔
پھر اس شخص نے فوراً ہی دوسرا سوال کیا کہاں سے تشریف لائیں گے وہ؟
کسی نے جلدی سے گزرتے ہوئے جواب دیا اسی شہر کے محلہ سوداگران سے۔ جواب سن کر وہ حیرت سے منہ تکتا رہ گیا اور دیر تک سوچتا رہا کہ آنے والا اسی شہر سے آرہا ہے۔ وہ آنا چاہے تو ہر صبح و شام آ سکتا ہے۔ مسافت بھی کوئی اتنی طویل نہیں کہ آنے والے کو کوئی خاص اہمیت دی جائے اور ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اس کا خیر مقدم کیا جائے۔
آخر لوگوں کے سامنے اپنے دل کی اس خلش کا اظہار کیے بغیر نا رہا سکا۔ ایک بوڑھے آدمی نے ناصحانہ انداز میں اسے جواب دیا بھائی! پہلے تو یہ سمجھ لو کہ وہ آنے والا کس حیثیت کا ہے؟ کس شان کی اس کی ہستی ہے۔
آنے والے مہمان کی زندگی یہ ہے کہ وہ اپنے دولت کدے سے نکل کر یا تو فرائض کی بندگی کے لئے خدا خانے میں جاتا ہے یا پھر جذبہ عشق کی تپش بڑھ جاتی ہے تو دیار حبیبﷺ کا سفر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اس کی شام و سحر اور شب و روز کا ایک ایک لمحہ دینے مہمات میں اس طرح درجہ مصرف ہے کہ نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اسے مہلت نہیں ملتی اس کے حریم دل پر ہر وقت عشق بے نیاز کا پہرہ کھڑا رہتا ہے۔ ہزار ہا انداز دلربائی پر بھی آج تک خیال غیر کو بازیابی کی اجازت نہیں مل سکی۔ اس کے خون جگر کی سرخی سے ویرانوں میں دین کے گلشن لہلہا اٹھے ہیں۔
عشق اور ایمان کی روح اس کے وجود کی رگ رگ میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اپنے محبوب کے شوکت جمال کے لئے ہر وقت بے چین رہتا ہے۔ اس کے جگر کی آگ کبھی نہیں بجھتی اس کے دل کا دھواں کبھی نہیں بند ہوتا۔ اور علم و حکمت کے نقش کے لئے اس کے قلم کی روشنائی کبھی نہیں سوکھتی۔ پلکوں کا قطرہ ڈھلکنے نہیں پاتا کہ اس کی جگہ آنسوؤں کا نیا طوفان امنڈنے لگتا ہے۔ وہ اپنے محبوب کے وفاداروں پر اس قدر مہربان ہے کہ ان کے قدموں تلے دل بچھانے کو بھی تیار ہے۔ وہ اپنے قاتلوں اور دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو تو معاف کر سکتا ہے لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں کے لیے اس کے دل میں دور دور دور تک کو جگہ نہیں وہ ان کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا اور ان سے صلح کی بھی کوئی گنجائش نہیں ۔علم کا ایسا دریا بہایا کہ بڑے بڑے قلم داں دنگ رہ گئے۔
دوستی تو بہت دور کی چیز ہے کہ وہ علم کے لیے اتنا مصروف ہے کہ اپنے دوستوں سے ہنس کر بھی بات نہیں کرتا۔
بارگاہ رب العزت اور شانِ رسالت ﷺ میں ادب احترام کا اس قدر ذوق ہے کہ ایک ایک لفظ اور حرف پر ادب کا پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ اب اہل عرفاں کی دنیا بیک زبان اسے “مجدد” کہتی ہے۔
تقویٰ اور پرہیز گاری کا یہ عالم ہے کے اس کو کے مصداق ہیں (کہ جہاں تیرے رب نے تجھے رہنے کا حکم دیا وہاں سے کبھی غائب نہ ہونا اور جہاں جانے سے منع کیا وہاں کبھی نظر نہ آنا چاہے موت آجائے)
وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گدائی پر دونوں جہاں کا اعزاز نثار کرچکا ہے۔ اس بوڑھے آدمی نے اپنے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اب تم ہی بتاؤ کہ اتنی عظیم شخصیت کہ جس کی علم اور ذہانت کا سکہ عرب و عجم نے مانا ہو اگر آج وہ ہمارے محلہ میں قدم رکھنے کی سعادت بخش رہا ہے تو کیا یہ ہماری معراج نہیں اور کیا اب بھی ہم سجاوٹ نا کریں۔ وہ شخص یہ باتیں سن کر کافی دیر حیران کھڑا رہا۔
ادھر امام اہل سنت کی سواری کے لئے پالکی (یعنی پرانے زمانے میں ایک چار بانسوں والی ڈبا نما کرسی ہوتی تھی) درواز پر لگا دی گئی تھی۔ سینکڑں مشتاقاں دیدار کے لئے انتظار میں کھڑے تھے۔ امام صاحب وضو سے فارغ ہو کر کپڑے زیب تن فرمائے عمامہ باندھا اور عالمانا وقار پر باہر تشریف لائے۔ چہرہ انور سے فضل و تقویٰ کی کرن پھوٹ رہی تھی۔ مجمع پر دیدار کے لئے بے خودی کا عالم طاری تھا بڑی مشکل سے سواری تک پہنچے۔
سواری میں بیٹھنے کے بعد کہاروں نے پالکی اٹھائی اور سوار لے کر چلنا شروع کردیا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں نیاز مندوں کی بھیڑ ساتھ چل رہی تھی۔
پالکی لے کر تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ امام اہل سنت نے آواز دی۔
پالکی روک دو۔۔۔۔۔ حکم کے مطابق پالکی رکھ دی گئی۔ ہمراہ چلنے ولا مجمع بھی وہیں رک گیا۔
اضطراب کی حالت میں باہر تشریف لائے پالکی اٹھانے والوں کو اپنے قریب بلایا اور مغموم اور غم زدہ آواز میں دریافت کیا۔
اے پالکی اُٹھانے والوں! آپ میں کوئی آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نہیں ہے؟ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ سچ بتائیے، میرے ایمان کا ذوق و لطیف سید زادے کی خوشبو محسوس کر رہا ہے۔
آپ نے سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دیا تو حیاء کی وجہ سے ان پالکی اٹھانے والوں میں سے ایک شخص آگے آیا اور کہنے لگا۔ جناب! میں ہی سید زادہ ہوں کسی دوسرے شہر سے یہاں چند دنوں ہی سے رہائش اختیار کی ہے کوئی کاروبار نہیں تھا اس لئے ان مزدوروں کے ساتھ کام شروع کر دیا اور آپ نے میر جد امجد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ پیش کیا اس لیے میں سامنے آگیا۔ ورنہ یہاں سید زادے کو کون پوچھے اور اس کا خیال رکھے!
ابھی اس سید زادے کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ یہ منظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وقت کے امام وقت کے مجدد امام اہل سنت عاشق ماہ نبوت حضرت امام احمد رضا خان نے اپنا عمامہ اتار کر اس سید زادے کے قدموں میں رکھ دیا ہوا تھا اور رو رو کر ہاتھ جوڑ کر عرض فرما رہے تھے اور رونے کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی روٹھے ہوئے عاشق کو مناتا ہے۔
آپ اس سید زادے سے رو رو کر عرض کرنے لگے۔ اے میرے پیارے سید زادے! یہ میں نے کیا کر دیا کہ میں نے ایک سید زادے کے کندھے پر سفر کرنے کی کوشش کی اور اگر بروز قیامت میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھ لیا کہ کیا ہمارے نواسوں کے کاندھے تم جیسوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تھے تو میں کیا جواب دوں گا؟
اے پیارے سید زادے ! میری عرض سنو! اور مجھ کو معاف کر دو، انہوں نے معاف تو کر دیا لیکن پھر بھی آپ پر خوف کا غلبہ طاری رہا اور بار بار ان کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے۔
کچھ دیر گزرنے کے بعد فرمانے لگے اب میری سزا یہی ہے کہ اے سید زادے ! آپ پالکی میں بیٹھو! اور میں اس کو اُٹھاؤں گا۔
لوگ یہ منظر دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگے اور ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ یہ امام صاحب پالکی نہ اُٹھائیں کاش یہ پالکی اُٹھانے کا موقع ہم کو مل جائے اور امام صاحب نہ مانے اور خود ہی پالکی اُٹھائی۔
زمانے نے یہ منظر اپنی چشم پر آب سے دیکھا
عشق کے بیمار کی کوئی دوا ہو تو ہی آرام بخشے
ڈال دی قلب میں عظمت آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرشدی اعلی حضرت پر لاکھوں سلام
آپ جیسا با ادب آنکھ دیکھا نہیں اور کانوں نے سنا نہیں۔
اے مسلمانو! اس واقعہ کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے زرا سوچو کہ ہم سید زادوں کی کتنی عزت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر منہ چڑھانا شروع کر دیتے ہیں میرا ان سے صرف ایک ہی سوال ہے۔
کیا رسولﷺ کی تعلمیات سے انکاری ہو؟
کامل مسلمان ہونے کے لیے محبتِ رَسول کا ہونا اِس قدر لازِم و ضروری ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اُس وَقْت تک (کامِل) مؤمِن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والِد ، اَوْلاد اور تَمام لوگوں سے زِیادہ مَحْبُوب نہ ہوجاؤں،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ لباس ہو ، جگہ ہو یا آپ کی آل و اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم ہوجاتی ہے مثلاً نسبتِ نکاح ملنے سے اُمّہاتُ المؤمنین اور ازواجِ مطہرات ، نسبتِ صحبت ملنے سے صحابیت اور نسبتِ اولاد ملنے سے سِیادَت کا شرف میسر آتا ہے۔ آپ کی اولاد جسے ہم ادب سے آلِ رسول اور ساداتِ کرام کہتے ہیں اسے بھی پیار اور احترام کی نِگاہ سے دیکھا جائے یہی مَحبّتِ رسول کا تقاضا ہے۔
یوں تو لاکھوں واقعات ہیں لیکن میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سید زادے کے کمالات کا وصف خود لاشعور کے سفر سے شعور کے سفر تک طے کیا تھا۔ میرے ماں، باپ اور سبھی گھر والے مجھے سید زادوں کی عزت و تکریم کا کہتے تھے لیکن میں ڈھیٹ تھی یا پھر امتحان یا آزماہش، اُس واقعہ کا ذکر میں پہلے ایک آرٹیکل میں کر چکی ہوں۔ یہ زندگی فانی ہے،ایسا کر کے مت جائیں کہ بعد میں قبر میں بھگتنا پڑے اور قبر کی سختی بڑا عذاب ہے۔ ڈریں کسی پر بھی وہ بات کرنے سے جس کا آپ کو علم نہ ہو، پتا نہ ہو، تو خاموشی اخیتار کریں کیوں کہ خاموشی بہترین حل ہے ورنہ سب کچھ بہتان بازی میں آتا۔
آخر پر ایک بات عرض کرتی چلوں میں نے سنا ہے ،حضرت علّام محمد الیاس عطّار قادری صاحب بذاتِ خود ساداتِ کرام کی تعظیم و توقیر بجالانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ملاقات کے وقت اگر بتادیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو اُن کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں، سیّد زادے کا ہاتھ چُوم لیا کرتے ہیں ، انہیں اپنے برابر میں بٹھاتے ہیں حتّٰی کہ ساداتِ کِرام کے بچّوں سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سید زادوں کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاالنبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تحریر: اقصیٰ حسن