پشیمانم ، پشیمانم ، پشیماں ، یا رسول اللہ ﷺ
ان سے ملنے کی یہی اک راہ ہے
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
ذرا اے صبا تو ادب سے چل
یہ بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
جو وہاں کے باغ کا خار ہے
وہ میری نگاہ میں پھول ہے
جسے چاہے جیسے نواز دے
یہ مزاج عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
پشیمانم، پشیمانم، پشیماں
یا رسول اللہ ﷺ
ابن حبیب سے روایت ہے کہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے مسجد نبوی میں کسی بات پر مباحثہ کیا۔ اس وقت خلیفہ کے ہمراہ پانچ سو شمشیر بند بھی موجود تھے۔ دوران گفتگو جب خلیفہ کی آواز قدرے بلند ہوئی تو امام مالک رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
امیر المؤمنین! مسجد نبوی میں اپنی آواز بلند نہ کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام وفات کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ حیات مبارکہ میں تھا، یہ سنتے ہی امیر المؤمنین ابوجعفر منصور عباسی کی آواز پست ہو گئی حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی مدینہ منورہ میں بسر کی۔
جب بھی قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تو آپ شہر سے باہر حدود حرم تک جاتے اور اس طرح بیٹھتے کہ جسم حدود حرم پاک کے اندر رہتا، اور فضلہ حدود حرم سے باہر ہوتا، کسی کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں مجھے حدود حرم سے باہر موت نہ آجائے.
ایک طرف تو دیار حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنا لگاؤ تھا، اور دوسری طرف ادب کی یہ انتہا تھی۔ دوسری طرف ادب کی یہ انتہا کہ اپنی نجاست مدینہ منورہ کی مٹی میں شامل کرنا گوارا نہیں۔ محبت وادب کا یہ امتزاج بہت کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔
امام مالک رحمة اللہ علیہ کی یہ عادت تھی کہ مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے راستہ کے درمیان چلنے کی بجائے دیواروں کے قریب چلتے کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ ان راستوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نشانات موجود ہوں۔
اگر میرے قدم ان نشانات پر آگئے تو سخت بے ادبی ہو گی۔ حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے ایک مرتبہ حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس سواری کے لئے بہترین گھوڑے موجود تھے، مگر آپ مدینہ منورہ میں گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے،
اس کی کیا وجہ ہے آپ نے فرمایا، مجھے زیب نہیں دیتا کہ جس مقدس جگہ پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہوں میں ان گھوڑوں کی سموں کو پامال کروں، حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے جذب القلوب میں لکھا ہے امام مالک رحمة اللہ علیہ ادب کی وجہ سے مدینہ منورہ میں گھوڑے پر سوار نہ ہوتے تھے۔
ایک مرتبہ کسی نے باتوں باتوں میں یہ کہہ دیا کہ مدینہ منورہ کی مٹی خراب ہے۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے فتوی دیا کہ اس شخص کو تیس درے مارے جائیں اور کچھ عرصہ کے لئے قید بھی کر دیا جائے۔
کسی نے پوچھا:حضرت! اتنی سختی کیوں؟
فرمایا: ایسا شخص تو اس قابل ہے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے.
جس مٹی میں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں۔ وہ اس کے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کی مٹی خراب ہے کسی اللہ والے نے فارسی زبان میں ایک شعر لکھا ہے.
ترجمہ: آسمان کے نیچے عرش الہی سے بھی نازک تر مقام ادب یہ روضہ اقدس ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ اور بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ جیسی شخصیات بھی یہاں آکر سانس کو روک کر قدم رکھتی تھیں۔ اہل دین کی نظر میں بارگاہ اقدس میں زور سے سانس لینا بھی گویا بے ادبی ہے۔
حضرت نثار فتحی نے کیسا خوبصورت شعر کہا ہے۔ (یہ شعور تنفس بھی ہمیں بار ہوا ہے) حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ کے دل میں روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسجد نبوی کا غیر معمولی ادب تھا جب آپ کا ذکر مبارک شروع ہو جاتا تو عجیب کیفیت طاری ہو جاتی
کسی نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے فرمایا: اگر تم وہ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو تم مجھ پر اعتراض نہ کرتے، اسی ادب کی وجہ تھی کہ آپ کو خواب میں کثرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوتا تھا، حضرت مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں
کہ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا میری کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب نہ ہوا ہو۔ سبحان اللہ!
مجھے میرا دل وہاں لے کے چل
جہاں رحمتوں کا نزول ہے
ذرا اے باد صبا تو ادب سے چل
یہ بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
Posted by Rizvi Media World