لیلتہ المبارکہ

Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برات کہا جاتا ہے، شب کے معنی ہیں رات ، براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے کہ گناہوں سے نجات کی رات، گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
اس ماہ شعبان مقدس کے فضائل پیغمبر اسلام حضور نبی مکرم علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے دلنشیں انداز میں بیان فرمائے ہیں چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’شعبان میرا مہینہ ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث مبارکہ سے ماہ شعبان کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ جس مہینے کو حضورﷺ اپنا مہینہ فرمادیں، اس کی عظمت اور شان کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا
شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔
(الجامع الصغیر للسیوطی،ص۳۰۱،حدیث ۳۸۸۹)
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے: رجب بیج بونے کا مہینہ ہے، شعبان آبیاری جبکہ رمضان اس کا پھل کھانے کا مہینہ ہے۔
اس ماہ مقدس کی عظمتوں اور فضیلتوں میں یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو نہایت رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں والی ہے۔ یہ رات شعبان المعظم کی پندرھویں شب ہے۔ اس رات کو نصف شعبان کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
شب برات کے دیگر نام
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مکاشفۃ القلوب میں اس شب کے اور نام بھی درج فرمائے ہیں۔
لیلۃ التکفیر (گناہوں کی معافی کی رات)
شب حیات
شب مغفرت
شب آزادی
لیلۃ الشفاعۃ (شب شفاعت)
لیلۃ القسمہ والتقدیر (تقسیم اور تقدیر کی رات)
قرآن مجید نے بھی اس رات کو مبارک رات کہا ہے جس کا ذکر سورۃ الدخان کی آیت نمبر ۳ میں ہے۔
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ
(سورہ الدخان)
ترجمۂ کنز الایمان
بیشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔
برکت والی رات:
اکثر مفسرین کے نزدیک برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے اور بعض مفسرین اس سے شبِ برات مراد لیتے ہیں۔ اس رات میں مکمل قرآنِ پاک لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا، پھر وہاں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ۲۳ سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے اور اسے برکت والی رات اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآنِ پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس رات میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں (خصوصیت کے ساتھ) قبول کی جاتی ہیں ۔ جن کثیر علماء کے نزدیک یہاں آیت میں برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے۔
شب ِبرات کے فضائل
جیساکہ اوپر ذکر ہوا کہ برکت والی رات کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شبِ برات ہے، اس مناسبت سے یہاں شبِ برات کے فضائل ملاحظہ ہوں
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: ۱-بقر عید کی رات ۲-عیدالفطر کی رات ۳-شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۴-عرفہ کی رات اذانِ (فجر)تک۔ ‘‘
(در منثور، الدخان، تحت الآیۃ: ، ۷ / ۴۰۲)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس جبریل آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگرکافراور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور(تکبر کی وجہ سے)کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا۔
(شعب الایمان ، الباب الثالث و العشرون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان ، ۳ / ۳۸۳ ، الحدیث: ۳۸۳۷)
شب برات اور معمول مصطفیﷺ
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدسﷺکو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔
(ترمذی،ج2،ص182، حدیث: 736)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاکﷺ کو نہ پایا۔ میں آپﷺ کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔ نبیِّﷺنے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔
(ترمذی،ج۲، ص۱۸۳، حدیث: ۷۳۹ ملتقطاً)
معلوم ہوا کہ شبِ برات میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔
(مراٰۃ المناجیح،ج۲،ص۲۹۰)
شب برات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ماہ شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے، اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزور و مسکین لوگ ماہ رمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں، حکام قیدیوں کو طلب کرکے جس پر ’’حد‘‘ (سزا) قائم کرنا ہوتی، اس پر حد قائم کرتے۔ بقیہ کو آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے اد اکردیتے، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے اور رمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔
(غنية الطالبين، جلد۱، ص۲۴۶)
حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کا معمول
حضرت امام طائوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی علیھما السلام سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا
میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں
ایک حصہ میں اپنے نانا جان پر درود شریف پڑھتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتا ہوں کہ اس نے حکم دیا
اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب بھیجا کرو۔
(الاحزاب، ۳۳: ۵۶)
رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے حکم فرمایا
’’(اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا کہ وہ (اس سے)مغفرت طلب کررہے ہوں)
(الانفال، ۸: ۳۳)
اور رات کے تیسرے حصہ میں نماز پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے
اور (اے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم!) آپ سربسجود رہیے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جایئے۔
(العلق، ۹۶: ۱۹)
میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہوگا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے پندرہ شعبان کی رات کو زندہ کیا اس کو مقربین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں میں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فاما ان کان من المقربين.
پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقربین میں سے تھا۔
(الواقعه، ۵۶: ۸۸)
(کتاب القول البدیع)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا معمول
امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شعبان المعظم کی پندرھویں شب عبادت میں مصروف تھے۔ سر اٹھایا تو ایک سبز پرچہ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا:
’’یعنی خدائے مالک و غالب اللہ جل جلالہ کی طرف سے یہ جہنم کی آگ سے برات نامہ ہے جو اس کے بندے عمر بن عبدالعزیز کو عطا ہوا ہے‘‘۔
(تفسير روح البيان، ج۸، ص۴۰۲)
امام اعظم امام امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں
’’یہ رات انعاماتِ سبحانی، عنایاتِ ربانی، مسرت جادوانی اور تقسیم قسمت انسانیت کی رات ہے۔ اس رات گناہ گاروں کی مغفرت ہوتی ہے، مجرموں کی معافی ہوتی ہے، خطا کاروں کی بارات ہوتی ہے اور یہ شب ریاضت مراقبہ و احتساب اور تسبیح و تلاوت کی رات ہے
بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں(۱۵ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔
(ماذا فی شعبان، ص۷۵)
اس رات نازک فیصلے ہوتے ہیں
پندرہ شعبان المعظم کی رات کتنی نازک ہے نا جانے کس کی قسمت لکھ دی جاتی ہے اور بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رہ جاتا ہے اور اس کے بارے کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے، غنیتہ الطالبین میں ہے بہت سے کفن دھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگر کفن پہننے والے بازار میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں مگر اس میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی موت کا وقت قریب آ چکا ہوتا ہے۔ کئی مکانات کی تعمیر کا کام پورا ہو چکا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان زندگی کا وقت پورا ہو چکا ہوتا ہے۔
(غنیتہ الطالبین)
کونسے لوگ محروم رہ جائیں گے
حضرت سیدنا امام بیہقی شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فضائل الاوقات میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا چھ آدمیوں کی اس رات بخشش نہیں ہوگی
شراب کا عادی
ماں کا نا فرمان
زنا کا عادی
قطع تعلق کرنے والا
تصویر بنانے والا
چغل خور
(فضائل الاوقات)
اسی طرح کاہن، جادوگر ، تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والا اور کسی مسلمان سے بغض و کینہ رکھنے والا اس رات کی سعادت سے محروم رہے گا۔
نصف شعبان المعظم کی یہ عظیم مقدس شب ہمارے لئے اللہ سبحانہ کی طرف سے رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کی نوید سعید لے کر آتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس شب کی برکتوں کو سمیٹیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی