تربیت

Article by Farha Noor
ہانڈی میں مصالحے ایک خاص تناسب سے ڈالے جاتے ہیں تبھی ذاٸقہ اور لذت برقرار رہتی ہے اگر نمک یا مرچ ذیادہ ہوجائے تو سارا کھانا بے ذاٸقہ ہوجاتا ہے یہی حساب انسان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرنے والے تعمیری عناصر کا ہے۔ اگر ہم بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور نہ دیں انکی ساری شخصیت تباہ ہوکے رہ جاتی ہے، فقط بچوں کو ہی نھیں معاشرے کے ہر فرد کو تربیت کی ضرورت ہے۔
گھوڑا ایک ایسا جانور ہے جس کی فطرت کے کچھ پہلو انسان کے مشابہ ہیں گھوڑے کو اسکا مالک تربیتی مراحل سے گزار کر سدھاتا ہے، مختلف جنگی گُرسیکھاتا ہے، یہاں تک کہ گھوڑا مالک کے مزاج کو سمجھ کہ خود کو اس میں ڈھال لیتا ہے۔ انسان کے اندر بھی نفس کی شکل میں جانور موجود ہے جس کی تربیت کے لیے اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں نبی ورسولﷺ مبعوث فرمائے، جن کا مقصد انسان کو انسانیت سیکھانا اور اشرف المخلوقات کو اسکے مقام کی پہچان کرانا ہے، مالک کا فرمانبردار بندہ بنانا ہے۔
تربیت کا فریضہ ہم نے والدین اور استاد تک محدود کرکے معاشرے پہ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ ہمارے والدین کے پاس اپنی مصروف زندگی میں بیٹھ کر بات کرنے کا وقت نھیں ہے انھوں نے اینٹینا سیٹ کرکے لہروں کے حوالے کردیا ہے کس طرح کے سگنل آرہے اس میں بچے کے زہن میں کیا امیج بن رہا ہے وہ کیسا انداز فکر اختیار کررہا ہے, وہ لاپرواہ ہیں کیونکہ یہ ذمہ داری اساتذہ اور کتابوں کی ہے۔ اساتذہ یہ فرض بس پروفیشنل ڈیوٹی سمجھ کر ادا کررہے ہیں انکا تمام تر فوکس کم وقت میں طلبا کے ذہن میں زیادہ نصاب انڈیلنا ہے۔ تربیت کی ذمہ داری کوٸی نھیں لیتا لیکن تربیت پہ انگلیاں اٹھانے کیلٸے سب تیار ہیں۔ تربیت وہ محروم عنصر ہے جو ہر ایک کو دوسرے طبقے ،دوسرے شعبے کی ذمہ داری لگتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔
سوچ سے عمل بنتا ہے ، عمل سے کردار ، کردار سے شخصیت اور شخصیت سے انسان بنتا ہے۔
تربیت کا مرکزی لاٸحہ عمل فرد کی سوچ ہے ایک بچے کو اچھا مسلمان، اچھا انسان ، اچھا شہری بننے کے لیے مثبت تعمیری سوچ کا اہم کردار ہے۔ جس کی وقتاً فوقتاً ٹیوننگ کی ضرورت ہے ۔ ہمارا ذہن آپریٹنگ سسٹم کی طرح کام کرتا ہے صحت مند جسم ہارڈوئیر ہے اور روح سافٹ وئیر ہے۔ سسٹم میں وائرس(گناہ) داخل ہوکہ پورے سسٹم کو تباہ کردیتا ہے جیسے اسی طرح منفی سوچ نہ صرف ہماری جسمانی صحت میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ہماری نفسیاتی وذہنی نشوونما پہ بہت بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
جس طرح بچہ تعلیمی میدان میں اساتذہ کی زیرنگرانی ہاٸی لیول تک درجہ بدرجہ ترقی کرکے ڈگری حاصل کرتا ہے۔ روح کی تربیت کے لیے بھی روحانی استاد مرشد کا اہم کردار ہے جو اللہ پاک کے چنے ہوئے انعام یافتہ بندے ہوتے ہیں جن کا مقصد انسان کو بری عادات واخلاقیات کی آلاٸش سے پاک کرکے ٹیوننگ کرنا ہے انکی روح کے اینٹینے کا اللہ سے تعلق قاٸم کرنا ہے۔
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ ہم نے بزرگوں کی صحبت کے بچائے موباٸل وسوشل میڈیا کی صحبت اپنا لی ہے۔ تربیت پہ ماحول کا بہت ذیادہ اثر ہے جیسے ایک بیج کو پودے سے درخت کی صورت میں پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول درکار ہوتا ہے۔
ہم نام کے موسمی مسلمان بن گٸے ہیں جن کا دین فقط سٹیٹس اپڈیٹس ، پوسٹ کے اظہار تک رہ گیا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد فقط کھانا ،پینا ،سونا ہی رہ گیا یہ سب تو جانور بھی کرتے ہیں لگی بندھی روٹین کے ساتھ محدود مادی مقاصد کی تگ و دو میں زندگی جیسی عظیم نعمت کو ضاٸع کررہے ہیں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اللہ پاک نے انسان کو اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان اللہ پاک کا راز ہے ۔
حدیث قدسی کا مفہوم ہے
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
پاکیزہ نفوس کی صحبت واطاعت سے ہی نفس کی پہچان اور قرب خدا نصیب ہوتا ہے۔ پاکیزہ نفوس کی مشک ہماری خاک میں حب اللہ اور حب رسولﷺ کا بیج لگا کر مشکبار کردیتی ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
نگاہ مردمومن میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
ہدایت من جانب اللہ ہے اور اسکے لیے دو ہی طریقے پروردگار نے بالعموم اختیار فرمائے، ایک سیدھے راستے صراط مستقیم کی طرف رہنماٸی اور دوسرا صراط الذین انعمت علیھم اپنے بندوں کے ذریعے رہنماٸی۔
منزل اور منزل تک ہاتھ پکڑ کر پہنچانے والے منزل کے راہی۔ ہمیں منزل تو پتہ ہے ولی کامل منزل کے رہنما کا دامن تھام کر انکو رول ماڈل سمجھ کر اپنانے کی ضرورت ہے اپنی ظاہری وباطنی تربیت کے لیے۔
مولانا رومی نے فرمایا ہے کہ شیخ یا مرشدِ کامل وہ شخص ہیں جو جامع نور الھدیٰ ہوتے ہیں ان کے سینے نور حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں فنا فی اللہ بقا باللہ کے درجات طے کر چکے ہوتے ہیں،ان کی رہنمائی کو ہمراہ کئے بغیر ایسے تمام اوصاف جو تزکیہ نفس کے ضروری لوازم سمجھے جاتے ہیں طالب کی رسائی و پہنچ سے باہر ہوتے ہیں مثلاً تکمیل ایمان، حسن اخلاق ، کردار سازی، اعلیٰ اوصاف ، تقویٰ، توکل اللّٰہ ، قناعت، نور باطن اور معارفت اللّٰہ۔
آج کے معاشرے میں ڈپریشن ،ٹینشن ،مایوسی سب سے بڑا مسٸلہ ہے ہردوسرا بندہ ہمیں ذہنی بیمارنظرآتا ہے۔ روح مادیت پرستی کے غلافوں میں قید زخمی حالت میں ہے ہم جسم کی تکمیل خواہشات میں مصروف اپنی جانوں پہ ظلم کررہے ہیں۔ ظاہری, باطنی طور پہ صحت مند انسان سے ایک بہترین معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔
حکمران اپنے دورحکومت میں بہت ساری قومی ومعاشرتی اصلاحات و منصوبے لےکہ آنے کا عہد کرتے ہیں اسلام کے نام پر بنائے گٸے ملک پاکستان کی باطنی اصلاح کے لیے کوٸی مفید منصوبہ نھیں بنایا گیا کلمہ کی وہ اساس جو ہمیں متحد کرتی ہے اس کے انفرادی سطح پہ عملی نفاذ کے لیے کوٸی اقدام نھیں کیے گٸے۔ وہ قوم جس نے کلمے کی طاقت سے دنیا پہ حکومت کی مرکز سے دور ہوکرمغربیت میں جکڑی غلام قوم بن گئی ہے، کمی صرف تربیت کی ہے اسکے عملی نفاذ، سازگارماحول کی ہے۔
مصنفہ: فرح نور