غدار ابنِ غدار ابنِ غدار
Article by Zain Rizvi
ایران نے حالیہ میں اسرائیل پر 300 سے زائد پروجیکٹائل میزائل داغے تھے۔ جن کی روشنی اور گونج سے پورا کفر لرزا تھا کہ اسی دوران اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوئم نے ان کو ناکام بنا دیا۔
اور ان پروجیکٹائل میزائل میں سے چند ہی کچھ نقصان کر سکے۔
یوں تو یہ جناب ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر یہ شخص مسلمانوں میں سب سے بڑے لیول کے غداروں اور استعمار کے ایجنٹوں میں سے ایک ہے۔
حسین ابن علی ہاشمی ، شاہ عبداللہ کے دادا تھے۔
1908ء میں ان کو عثمانی ترکوں نے خادمین مکہ اور اہل بیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے شریف مکہ بنا دیا۔
اور شریف مکہ کہ نام سے بھی مشہور ہوئے۔
ان کے تین بیٹے تھے۔
1۔ شاہِ حجاز، علی بن حسین
2۔ شاہ اردن ، عبداللہ اول بن حسین
3۔ شاہ عراق و شام ، فیصل بن حسین
شریف مکہ کی کہانی سے پہلے ” Thomas Edward Lowrence کا ذکر لازم ہے کیونکہ اسی کے ساتھ مل کر شریف مکہ اور اس کے بیٹوں نے عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت کی تھی اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب بنے۔
کہانی کے پس منظر کی طرف چلتے ہے
۔ T .E Lawrence جو لارنس آف عربیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
1888ء میں برطانوی علاقے ویلز ( Wales ) میں پیدا ہوا تھا۔ شروع سے ہی اس کو تاریخی عمارتیں دیکھنے کا شوق تھا۔
آثار قدیمہ دیکھنے کا شوق رکھنے والا تھامس ایڈورڈ لارنس 1909ء میں 21 سال کی عمر میں تن تنہا شام پہنچا اور وہاں جا کر آثار قدیمہ کا مطالعہ کرنے لگا، تاریخ میں گریجویشن کرنے کے بعد 1910ء تا 1914ء تک لبنان، شام، مصر اور عراق میں آثار قدیمہ پر مصروفِ تحقیق رہا۔ اسی دوران اس نے عربی زبان سیکھی اور عرب قبائل کی روایات، معاشرت اور تاریخ سے آشنا ہوا۔
جنوری 1914ء میں لارنس عارضی طور پر برطانوی فوج کا جاسوس بن گیا۔
اسی دوران جولائی 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ اس میں جرمنی اور عثمانی ترک اتحادی تھے۔ جن کا برطانیہ اور فرانس سے مقابلہ ہوا۔
برطانیہ اور فرانس اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وہ مشرقی وسطیٰ میں لشکر کشی کرتے۔ لیکن انگریز جانتے تھے مشرقی وسطیٰ میں بیٹھے ترک بحر ہند میں برطانوی تجارت کی ناکہ بندی کر کے برٹش ایمپائر کو معاشی طور پر تباہ کر سکتے ہیں اس لیے مشرقی وسطیٰ میں ترکوں کے خلاف جنگ چھیڑنا اشد ضروری ہوگیا۔
برطانیہ اور فرانس نے طے کیا کہ عرب قبائل کو عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا جائے لیکن سوال یہ تھا کہ کس طرح آمادہ کیا جائے ؟
لارنس آف عربیہ نے اس سوال کا جواب دیا کیونکہ لارنس آف عربیہ چار سال مشرقی وسطیٰ میں گزارنے کی وجہ سے عرب قبائل کی اقدار و روایات کے بارے میں خاصی معلومات رکھتا تھا۔ اسی بنا پر اس کو عارضی جاسوس سے جنوری 1915ء میں جاسوس فارن آفس میں بھرتی کر لیا گیا ۔
یہی سرکاری ادارہ دنیا بھر میں برطانوی سلطنت کے مفادات کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کی پہلی تعیناتی فارن آفس کی قاہرہ شاخ میں ہوئی پہ قاہرہ شاخ ہی ہے جہاں 1915ء میں لارنس آف عربیہ اور دیگر برطانوی مدبر یہ نظریہ سامنے لائے کہ کسی عرب سردار کو خلافت بنانے کا لالچ دیا جائے، ایسی عرب خلافت جو تقریبا پورے مشرقی وسطیٰ پہ محیط ہو۔ یوں وہ شان و شوکت اور طاقت میں عثمانی خلافت کی ہمسر بن جاتی جو اپنے وقت میں دنیا کی سپر پاور تھی۔ اس نظریے کے سلسلے میں لارنس آف عربیہ نے ہی ایک مبسوط مقالہ لکھا اور اس میں عرب قبائل کی تاریخ ، قبائلی روایات ، تہذیب و معاشرت اور اطوار تفصیل سے بیان کیے۔
اس نے لکھا ” مشرقی وسطیٰ کے سنی عرب قبائل کو متحد کر کے وہاں ایسی خلافت کا قیام ممکن ہے جو طاقت و حشمت میں عثمانی خلافت کے ہم پلّہ بن جائے”
برطانوی حکومت نے فوراً اس عرب خلافت کے قیام کی تجویز منظور کر لی۔ چنانچہ مشرقی وسطیٰ میں ایسے طاقتور عرب سردار کی تلاش شروع ہوئی جو بغاوت کا سرغنہ بن سکے۔ انگریزوں کی نظریں شریف مکہ حسین بن علی ہاشمی پر جا کر ٹھہر گئی۔۔
حسین بن علی ہاشمی ترکوں کی پارلیمنٹ کے ممبر اور مکہ مکرمہ کے والی ( گورنر) اور خادمِ حرمین شریفین کی حیثیت سے عرب قبائل میں شہرت رکھتا تھا اس کے دل میں شاہ حجاز بننے کی تمنا سمائی ہوئی تھی، اسی جاہ طلب خواہش سے انگریزوں نے فائدہ اُٹھایا اور پرکشش ترغیبات دے کر اسے عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کر لیا گیا۔ یہ جولائی 1916ء کی بات ہے۔
اکتوبر 1916ء میں لارنس آف عربیہ کو حجاز بھجوایا گیا تاکہ وہ حسین بن علی ہاشمی کی فوج کے ساتھ مل کر عثمانیوں کی چوکیوں پر حملے شروع کر سکے۔
اس وقت تک لارنس آف عربیہ کیپٹن بن چکا تھا، عرب بغاوت میں کرنل لارنس کا اہم کردار یہ ہے کہ اس نے حسین بن علی ہاشمی اور اس کے بیٹے شہزادہ فیصل کو قائل کر لیا کہ وہ برطانوی جنگی حکمت عملی کے مطابق عمل کریں۔ اس حکمت عملی پر چلتے ہوئے باغی عرب قبائل چھاپہ مار کاروائیاں کرنے لگے جس سے جلدی ہی حجاز اور نجد کے کئی قبائل شریف مکہ سے آن ملے۔ انہوں نے برطانوی حکومت سے ملے جدید اسلحہ اور مالی امداد سے حجاز ریلوے کو سخت نقصان پہنچایا جس سے ترک فوج کو سپلائی ملتی تھی، سپلائی کٹنے سے عرب شہروں میں مورچہ بند ترک فوج محصور ہو گئی۔
دلچسپ بات یہ کہ جب مشرقی وسطیٰ میں کرنل لارنس آف عربیہ عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں سے نبردآزما تھا تو برطانیہ، فرانس اور روس کی حکومتیں جنگ عظیم میں کامیابی یقینی دیکھ کر مشرقی وسطیٰ کے حصے بخرے کرنے کا معاہدہ تیار کرنے لگے۔
نومبر 1915ء سے معاہدہ پر بات چیت شروع ہوئی اور مئی 1916ء میں معاہدہ تکمیل تک پہنچا۔
یہ معاہدہ تاریخ میں “سائیکوس پیکوٹ معاہدہ” کے نام سے مشہور ہے۔
اس معاہدے کی رو سے موجودہ عراق، کویت، اردن اور اسرائیل کے علاقے انگریزوں کے حصے میں آئے۔
لبنان، شام، اور شمال مشرقی ترکی فرانس کو ملے جبکہ استنبول سمیت بقیہ ترکی روسیوں کو مل گیا۔
پہلی جنگ عظیم میں حسبِ توقع عثمانی ترکوں کو شکست ہوئی اور ان کی خلافت سمٹ کر ترکی تک محدود ہوئی اگر مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ترک فوج انگریزوں اور یونانیوں کو مار نہ بھگاتی تو آج ترکی شاید کہیں چھوٹا اور کٹا پھٹا ہوتا۔
اُدھر برطانوی حکومت نے اپنے حقیقی منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے۔ شریف مکہ کے بیٹے عبداللہ کو اردن جبکہ دوسرے فرزند فیصل کو عراق کا بادشاہ بنا دیا۔
برطانوی حکومت کے اس اقدام میں انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے عربوں سے کیے وعدے کا پاس رکھا ہے،
اس کو کہتے ہیں مکارانہ سیاست!
ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے والے شریف مکہ کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا۔ وہ 1925ء تک ہی شاہ حجاز رہ سکا کہ ابنِ سعود نے اس کی حکمرانی کا تخت الٹ دیا کیونکہ برطانوی اب ابنِ سعود کی حمایت کر رہے تھے۔
اُدھر عراق میں 1958ء میں فوج نے شہزادہ فیصل کی اولاد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اب صرف اردن میں ہی شریف مکہ کے وارثوں کی حکومت ہے۔۔
علامہ اقبال رحمہ اللّٰہ چونکہ ایک زمانے میں رہ کر دوسرے زمانے کی بات کرتے ہیں۔۔
جس وقت شریف مکہ اور ان کے بیٹے ترکوں کے خلاف بغاوت کر رہے تھے تو انہوں نے امیر فیصل کو ان الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے کہ ہے کہ
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا۔
اسی طرح علامہ اقبال نے اپنی نظر خضرِ راہ میں بھی فرمایا ہے کہ
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے تُرکمانِ سخت کوش
شریف مکہ کی شاہ حجاز بننے کی خواہش کو اکبر الہٰ آبادی نے بھی اپنے ان الفاظ میں بیاں کیا ہے
نئے زمانے کی ہسٹری کے عجیب مفہوم بن رہے ہیں
کہ خدمتِ دَیر کی بدولت حرم کے مخدوم بن رہے ہیں
اکبر الہٰ آبادی
تحریر: زین رضوی
Apk Israel likhny ka mtlb k Muslim bhi mentally tor pr Najaiz Sehooni Riasat ko qabul kr chuky hyn aur krty ja rahy hyn. Jb k Us Khittay me esi kici Riasat Jiska Nam Israel bamutabiq apk Mojud hi nahi hy. Wahan Sirf ek Mulk, Mumlikat, Riasat aur AL-Quds k Waris hyn Jink Watan ka Naam Palestine ya Falasteen hy. Baqi Article acha tha. Amzing.
Jbk ye Pasha Mardood bhi Gustakh tha to esy Khabees Ghaleez ko kici bhi tariqay se acha bana kr pesh na kren ta k kici Muslim k dil me is Zaneem k liye Narm Gosha na peda ho jaye. Ehtiyat Elaj se behter hy. Gustakh Zawal Pasha Islam aur Usmaniya Khilafat ka Ghaddar tha, Aur Ghaddar ya Corrupt jo bhi krty hen apny mafad k liye krty hen. Jisko angrezi me Publicity Stunt bhi kaha jata hy aj kal.