شمعِ انصاف، مہرِ عدل کا نظامِ بے مثل
Article by Dur-e-Sadaf Iman
امامِ عدل، شمعِ انصاف، مہرِ شجاعت
عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے جو نظام دیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آج تک ہر جگہ آپ کے نظام کی رکھے ہوئی سنگِ میل موجود ہے۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ۲۱ جمادیٰ الآخرہ ۱۳ ھ کو اپنے وصال سے ایک روز قبل چند اکابر صحابہ کی مشاورت سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ رسول ثانی مقرر کیا۔ آپ نے حضرت طلحہ کی اس بات پر جب انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی سخت مزاجی کا بابت ذکر کیا اور کہا: آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟
تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کروں گا
ترجمہ: میں نے لوگوں پر تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔
دورِ فاروقی
ٓٓآپ کے دورِ خلافت میں تمام اسلامی ریاستوں میں عدل ہی عدل اور نظم و ضبط ہی ضبط پھیل گیا تھا، آپ نے زمین پر عدل وانصاف اور دیانت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں۔ آپ نے ایسا فلاحی نظام قائم فرمایا کہ اشرف المخلوقات ہی نہیں جانوروں تک کے تحفظ کیلئے قوانین وضع فرمائے اور فرمایا
اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہریگا۔
اے کاش حکمران دورِ فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو پیش نظررکھ کر نظام حکومت قائم کریں۔
دور فاروقی میں احتساب کا سخت ترین نظام تھا۔ بڑی سے بڑی شخصیت قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر احتساب سے بچ نہ سکتی تھیں۔ حج کے موقع پر تمام صوبائی گورنروں کی حج میں حاضری لازم تھی۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ہر سال خود بھی حج میں شریک ہوتے۔ ہر علاقے کے لوگوں کو شکایات کا موقع دیا جاتا اور گورنروں کے خلاف فوری اقدمات ہوتے۔ آج کی طرح نہیں کہ مسلم ہو یا غیر مسلم بس دنیاوی لالچ میں آکر ہر ناجائز کام میں ساتھ دیا جائے۔
دورِفاروقی میں محکمات کا قیام
آپ نے اپنے دور میں جہاں عدل و انصاف کی ایک بے مثل مثال قائم کی وہیں آپ نے بے شمار محکمات کا تصور بھی دیا۔
آپ نے فوج، ڈاک، بیت المال، پولیس اور دیگر محکمے قائم کیے، جیل کا تصور اور سرائیں قائم کرائیں۔
چار ہزار مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے نو سو جامع تھیں۔
سن ہجری قائم فرمایا، نمازِ تراویح با جماعت ختم قرآن کے ساتھ شروع فرمائی، مساجد میں روشنی کا انتظام فرمایا، شہروں میں پہرے مقرر کیے، مدارس قائم فرمائے، اساتذہ کے وظائف مقرر فرمائے۔
مسجد نبوی کی توسیع فرمائی اور سادگی برقرار رکھی۔ مسجد حرام کے ارد گرد پہلی بار چار دیواری قائم فرمائی۔
آپ نے یہود کو حجاز مقدس سے نکال دیا اور تمام غیر مسلموں کو گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی دی۔
امن وامان کا قیام اور تجاوزات پر کنٹرول کرنا ہوتا تھا۔ آپ نے دریائے نیل سے بحیرہ قلزم تک ۶۹میل لمبی نہر، نہر امیر المؤمنین کے نام سے کھدوائی جس میں کشتیاں چلتی تھیں اسی طرح متعدد دیگر نہریں بھی کھدوائیں جن سے ایک نہر ’’نہر ابی موسیٰ اشعری‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
عملی خلافت
آپ نے اپنے دور خلافت میں عملی طور پر بتایا کے اقتدار حاصل ہو تو اس کا حق کیسے ادا ہوتا ہے۔ حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کو جنرل سیکرٹری ومحافظِ بیت المال مقرر کیا اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ کو محتسب مقرر کیا۔ احتساب کا سخت ترین نظام تھا۔
آپ نے تمام عہدیداروں کے لیے اصول و ضوابط مقرر فرمائے، عمل نہ ہونے کی صورت میں سخت باز پرس ہوتی اور سزا دی جاتی۔
حج کے موقع پر تمام صوبائی گورنروں کی حج میں حاضری لازم تھی۔
ہر علاقے کے لوگوں کو شکایات کا موقع دیا جاتا اور گورنروں کے خلاف فوری اقدمات ہوتے۔
جلیل القدر صحابی حضرت عمرو بن العاص گورنر مصر کے بارے میں ایک شخص نے شکایت کی، گورنر نے مجھے کوڑوں کی نا حق سزا دلوائی ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حج کے اجتماع میں حضرت عمر وبن العاص کو کوڑے مارنے کا حکم فرمایا جس کے بعد اس شخص نے قصاص کا حق معاف کرنے کا اعلان کیا۔
امیر المؤمنین اور تمام گورنروں کیلئے لازم تھا کہ ایک عام آدمی کی بود وباش اختیار کریں۔
ترکی مہنگاگھوڑا استعمال نہ کریں۔
باریک کپڑے نہ پہنیں۔
چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائیں۔
جائیداد میں اضافہ نہ کریں۔
اپنے دروازے عوام پر بند نہ کریں۔
محافظ مقرر نہ کریں۔
امیر المؤمنین خود بیت المال سے سال میں کپڑوں کے دو جوڑے اور روزانہ ایک مزدور کا معمولی وظیفہ وصول کرتے۔
آپ کی پہنی ہوئی قمیص کے کندوں پر ہمیشہ پیوند لگے نظر آتے۔ ایک مرتبہ خطبہ جمعہ میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی کہ کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا دھو کر سوکھنے کی انتظار میں تاخیر ہو گئی ہے۔
گورنر مصر حضرت عیاض بن غنیم رضی اﷲ عنہ نے پَتلا لباس پہنا تو انہیں معزول کر دیا اور کہا بکریاں لے جاؤ اور بکریاں چرایا کرو۔
فاتح ایران جلیل القدرصحابیِ رسول حضرت سعد بن ابی وقاض رضی اﷲ عنہ نے اپنے دفتر کے باہر پہرہ لگایا تو انہیں معزول کردیا۔
آپ کے سالے قدامہ نے شراب نوشی کی تو اسی کوڑے حدِ شراب قائم کی۔
یہ وہ دور تھا جو بے مثل تھا جہاں ہر شخص کو انصاف ملتا تھا اور حکمرانوں کے لیے کوئی خاص پروٹوکول نہیں تھا۔
کاش آج کے حکمرانوں کو یاد آئے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس ملت اسلامیہ میں حاکم ہیں، اپنا رتبہ پہچانے اور اسلامی تعلیم کے مطابق اقتدار نبھائیں۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
تحریر: دُرِ صدف ایمان