امیدِ قوم
Article by Laiba
امیدِ قوم
بابا جان امیرالمجاہدین رحمتہ اللہ علیہ کے پردہ فرمانے کے بعد جِس طرح اِس تحریک کو سعد السعود نے سنبھالا کوئی نہیں سنبھال سکتا تھا۔ یقیناً مرد قلندر کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اُسے کوئی پُر نہیں کر سکتا تھا لیکن اِس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ، بابا جی کی جو جھلک سعد السعود میں نظر آتی ہے وہ کِسی اور میں نہیں آتی
بابا جی کا اچانک سے اِس دنیا سے جانا یقیناً اہلِ سنت کے لیے عظیم خسارہ اور کارکنان کیلئے بہت بڑا صدمہ تو تھا ہی لیکن اِس سب بڑھ کر کئی گنا زیادہ صدمہ اِقبال کے اُس شاہین (سعد السعود) کیلئے تھا
کیونکہ ویل چیئر پر بیٹھے مرِد قلندر صرف اُنکے والد نہ تھے
بلکہ “قائد” تھے
“دوست “تھے
“غم خوار “تھے
“رہبر تھے”
“اُستاد” تھے
المختصر اسکی پوری دنیا تھے
شاید کوئی اور ہوتا تو بکھر جاتا، ٹوٹ جاتا، کبھی سنبھل نہ پاتا لیکن وہ تو امیر المجاہدین رحمتہ اللہ علیہ کا جانشین تھا غم کی اِس شدت میں بھی یہی کہا
میرا سب کچھ
یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر قربان
گویا عالمِ کفر کو یہ پیغام دیا ہو
اے مردِ قلندر کے وصال پر خوشیاں مناتے لعینو
اے کفر کے چمچو
بغور دیکھو
تمہاری خوشیوں کو خاک میں ملانے، سعد السعود سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہے ،اُسی نظریے پر جو امیرالمجاہدین رحمتہ اللہ علیہ دے کر گئے ،اُسی بات پر جو امیرالمجاہدین رحمتہ اللہ کہہ کر گئے، اُسی جماعت کے ساتھ جو وہ بنا کر گئے
اور
اُسی معاہدے کے ساتھ جو امیرالمجاہدین رحمتہ اللہ علیہ تُم سے کر کے گئے کہ گُستاخ مُلک کے سفیر کو باہر نکال پھینکو
اچھا تو اب تم اُسے جیل سے ڈراؤ گے؟
وہ تو مرد قلندر کا بیٹا ہے
جو
ہر ظالم ،ہر جابر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
اچھا تو کالعدم کرو گے؟
وہ تو کہتا ہے کہ
“مجھے خاک میں ملا کر
میری خاک بھی اُڑا دو”
تمہارے ہر ظُلم و جبر کو وہ اپنی ایک مُسکراہٹ سے زیر کر دیتا ہے
کفر کے گماشتے کہنے لگے
ہماری ضد ہے کہ نہیں رہا کریں گے اُسے،
اُس کے کارکنان جواب دیتے ہیں
ہماری بھی ضد ہے چھڑا کر دم لیں گے
یہاں ایک لمحے کیلئے رُک کر ایک سوال کرتے ہیں؛
آخر چند ماہ میں ایک نئے امیر کیلئے کارکنان کے دلوں میں اتنی محبت کِس نے ڈال دی؟
کہ اپنی جانیں بھی اُسکی ایک جھلک پر قُربان کرنے کیلئے تیار ہیں؟
جواب آتا ہے
تمہارے دلوں میں اُس انتیس سالہ جواں قائد کی محبت اُسی نے ڈالی جِسکی ناموس کی خاطر وہ آتشِ نمرود میں کودنے کیلئے بھی تیار ہے
کفر کے چمچے اُسے روکنے کیلئے ، اسکی راہ میں آئے روز رُکاوٹیں ڈالنے کی کوشش میں لگے ہیں
جب اُسکو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں
تو جواب آتا ہے
ہمارا سودا بازارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہو چکا ہے
اُسکی جماعت کے حق پر ڈاکہ ڈال کر، اُسکے مینڈیٹ کو چُرا کر اُسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں
وہ پھر میدان میں آ کر دشمن کو پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے
‘کہ ہم مایوس بالکل بھی نہیں ہیں، ہمارے سولہ حملے ناکام بھی ہوں ہم تب بھی مایوس نہیں ہوتے، ہم اُس وقت تک جدوجہد جاری رکھتے ہیں جب تک سومنات کا سینا چیرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے
یہاں سعد کی بٹالین سعد کے دُشمنوں سے کہتی ہے
تُم اپنی ہر کوشش میں ناکام ہو گے
وہ قلندر کا بیٹا ہے اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گا
یہاں مجھے ایک اور بات یاد آ رہی چلیں ذکر کر ہی دیتی ہوں
ہمارے ایک استاد ہیں
وہ ہمیں بہت اچھا پڑھاتے ہیں
لیکن پھر بھی ہم انہیں ویسا رزلٹ نہیں دے پاتے
وہ ہم سے سوال کرتے ہیں
کیا مجھ میں کوئی کمی ہے؟
ساری کلاس یک زبان ہو کر کہتی ہے
نہیں سر کمی ہم میں ہے
آپ میں نہیں
اِسی طرح ہم سعد کے کارکنان بھی یک زبان ہو کر کہتے ہیں
اے قائد کمی ہم میں ہے
آپ ہمارے پرفیکٹ قائد ہیں
ہم ویسا بدلہ آپکو نہیں دیتے
جتنی محنت آپ کرتے ہیں
ہمارا تو کبھی کمپین کرتے گلا بھی نہیں بیٹھا
اے قائد آپ ہمارے جتنے اچھے قائد ہیں
ہم آپکے اُتنے اچھے کارکنان نہیں
لیکن یہ عہد کرتے ہیں
کہ اچھے کارکنان بننے کی کوشش ضرور کریں گے
آپکا سر کبھی ہماری وجہ سے جھکے گا نہیں
اے قائد
خدا آپکی عمر دراز کرے
قوم کی اُمید ہیں آپ
تحریر:لائبہ اعوان