یہ وقت بھی گزر جائے گا
Article by Sher Bano Rizvi
انسانی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت وقت کی ہوتی ہے کیونکہ اگر وقت ہاتھوں سے پھسل جائے تو اُسے واپس لانا ناممکن ہے اس لیے ہمیں اپنے وقت کی قدر کرنی چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنا وقت کیسے گزار رہے ہیں کہیں ہم اپنا بہت سا وقت اللہﷻ کی نافرمانیوں میں گُزار کر جہنم کے حقدار تو نہیں بن رہے، کہیں نبی پاک صاحبِ لولاکﷺ کا فرمان نہ مان کر خود کو دین و دنیا کی رسوائیوں میں مبتلا تو نہیں کر رہے؟
ایک وقت وہ بھی تھا چھپ کر اسلام کی تبلیغ کی جاتی تھی اگر کسی کو پتہ لگ جاتا کہ اُس نے اسلام قبول کر لیا ہے تو اُس پر ظلم و ستم کیے جاتے، اُس سے ہمیں تاریخ نے اچھی طرح روشناس کروایا، لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم ہوا۔ زوال کے بعد عروج کا سورج طلوع ہوتا ہے، اگر انسان اپنے ارادے اور ایمان کی پختگی میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہ لائے۔ مسلمانوں کے عروج کے دَور میں کسی بھی طاغوتی قوت کی ہمت نہیں تھی کہ ان کی طرف آنکھ بھی اُٹھا لے، تب کا مسلمان ہر حال میں اپنی مثال آپ تھا۔
جیسے وقت گزرتا گیا مسلمان عملاً کمزور ہو گیا اور ایمان میں پختگی نہ رہی دین پر چلنا مشکل لگنے لگا، جب وہ اپنی راہ اور عظمت سے بھٹکنے لگا تب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، حکمران اچھا ہو تو رعایا بھی اچھی ہوتی ہے اور نیکی کی طرف گامزن ہوتی ہے، سنا ہے کہ حکمران جیسا ہو رعایا بھی ویسی ہوتی ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز بہت پرہیزگار اور نیک حکمران تھے تاریخ میں آیا ہے ان کے دور میں عُمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور واپس آیاتھا۔ ان کے وزیر کا کہنا تھا اگر وہ کچھ اور سال حکومت کرتے تو پوری دنیا میں عدل قائم ہو جاتا۔ وہ پھر بھی اپنا احتساب کرتے ہوئے خوف زدہ رہتے لیکن افسوس اب یہ حال مسلمان جب خود کو ہر حال میں صحیح تصور کرتا ہے تو راہ سے بھٹکنے لگتا ہے آج بھی اس پُرفتن دور میں جہاں مسلمانوں کے مال اور جان، محفوظ نہیں، وہاں ایمان کے برباد ہونے کا بھی خطرہ لاحق ہے ہمارے مُلک میں ایسے حکمران ہیں جن کو کلمہ بھی صحیح پڑھنا نہیں آتا اور ہماری بھولی عوام ان جیسے حکمرانوں کے ہاتھ میں اپنا ملک سُونپ کر بے خبر سُو رہی ہے کہ یہ حکمران ملک کے ساتھ ساتھ ایمان کو بھی کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہر وہ انسان جانتا ہے جس کے ایمان اور شریعت کے علم کی تھوڑی سی روشنی باقی ہو، جو لوگ خود کو ترقی یافتہ یا لبرل کہہ کر دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں، ان کو یہ بھی سوچنا چاہیے یہ وقت بھی گزر جائے گا پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا نہ دین نہ دُنیا، خالی ہاتھ رہ جائیں گے، اس لیے آج وقت ہے خود کے اندر جھانک کر ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو کر اپنے اعمال اور عقیدے کی اصلاح کا۔
آج تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ میں شامل ہو کر اپنے ووٹ کی قدر کو پہچانئے اور اپنی آنے والی نسل کو لبرل اور بے ایمان لوگوں سے بچا کر عاشقِ رسولﷺ اور باعمل حکمران کے حوالے کر کے اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا عقیدہ اور ایمان محفوظ کریں، آپ کا ایک ووٹ اس ملک سے بےحیائی اور بے ایمانی اور سُود خوری جیسے نظام کو بدل سکتا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو موت کو جو برحق ہے یاد رکھنا چاہیے تاکہ خود کو اور اپنی نسل کو “یہ وقت بھی گُزر جائے گا” کہ اصل مطلب باور کر سکے۔
آخر میں اعلیحضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بھٹکے ہوئے مسلمان کو مخاطب کرتے ہیں کہ
آج لیے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
تحریر: شہر بانو رضوی
حقیقت 👍
‘یہ وقت بھی گزر جائے گا’ بہت اعلیٰ