من سب نبیاً فاقتلوہ حدیث کی تخریج و تفصیل
Article by Umer Shehzad Niazi
بسم ﷲ العظیم والحمد لِلّٰہ علی دین الإسلام ،الصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء محمد رسول ﷲ ﷺ
لِّتُـؤْمِنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُـوَقِّرُوْهُ
تاکہ (اے مومنو) تم ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد (ساتھ دو) کرو اور اس (کے محبوب) کی تعظیم و توقیر کرو (کرواؤ)-الفتح 9
نماز اچھی، روزہ اچھا، زکوٰة اچھی، حج اچھا
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ کٹ مروں جب تک میں خواجہ بطحاؐ کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
آجکل شوشل میڈیا پر بغیر علم و تحقیق کے بعض نادان لوگ کم علمی و تعصب کی وجہ سے احادیثِ مقدسہ پر تاویلات و اعتراضات کر رہے ہیں۔علم و اصولِ حدیث درایت و اسماء الرجال کی آگہی و شناسائی سے نابلد افراد جہالت میں قصداً ہر روایت کو موضوع و من گھڑت قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ بعض کم عقل حدیث ”من سب نبیا فاقتلوه“ کو بناؤٹی حدیث کہتے ہوئے معتبر کتابوں میں موجود ہونے کے بھی انکاری ہیں۔ جن میں سرفہرست قادیانی حضرات ہیں۔ یاللعجب ان کے دجل، مکر و فریب کا عالم دیکھیں !
جس منتشر تاویل کے ذریعے اپنے آپ کو مرزا غلام قادیانی/قادیانیوں نے امام مہدی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سنن الدارقطني میں کسوف و خسوف (جلد 2 صفحات 419 تا 420 ) والی متروک و منقطع روایت ہے۔ جو حدیث بھی نہیں کسی ” محمد بن علی ” نامی بزرگ کی طرف منسوب قول ہے۔جبکہ (خزائن جلد 8 صفحہ 209 ) میں اس نے اپنے مکر و دجل سے یہ منقطع روایت رسول ﷲﷺ سے منسوب کر کے اس کو حدیث رسولؐ کہا ہے ۔ جبکہ اس روایت کے تمام روای منکر الحدیث و مہتم الکذب ہیں ۔ قادیانی آج بھی بےشرمی کے ساتھ اسے حدیث رسول ﷺ لکھتے ہیں اور پھر اسے صحیح ثابت کرنے اور مرزا قادیانی کو مہدی بنانے کے لئے چند احمقانہ دلیلیں دیتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ علم اصول حدیث کے مطابق یہ روایت جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے ۔ اس روایت کے علاوہ کوئی ایک ایسی دلیل نہیں ہے جس سے مرزا قادیانی امام مہدی ثابت ہو سکے جبکہ جو اس روایت میں درج ہے۔ اگر بالفرض اس روایت کو درست مان لیا جائے تب بھی اس روایت میں آسمان پر آغاز و نصفِ رمضان میں جو کسوف و خسوف ظاہر ہونے کا ذکر ہے ۔وہ بھی اس کی جانب برخلاف صادر آیا ہے !!
خیر ہم اپنے موضوع کی جہت آتے ہیں ۔ دراصل حدیث من سب نبیا فاقتلوه“ ” پر تاویلات و اعتراضات تو بہانہ ہیں اصل قبیح عزائم و نشانہ آفاقی و حساس آئین پاکستان 295-C ہے ۔
اگر بدلا گیا قانون توہینِ رسالتﷺ کا
تو پھر توہین ِ مرسل ﷺکی حکومت مرتکب ہو گی
کھڑے ہوں گے کٹہرے میں سبھی قاتل عقیدت کے
کہ ناموسِ رسالت ﷺ کی یہ اُمت محتسب ہو گی
آئیے ذرا اس مطلوبہ حدیث کے ماخذ و تخریج
، درایت و احکام پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔ :
• یہ حدیث مَنْ سَبَّ نَبِیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابَہُ جُلِد
حضرت امام طبرانیؒ نے معجم الصغیر للطبرانی جلد 1 صفحہ نمبر 393 میں درج کی ہے ۔
• اسی طرح علامہ عبد الرؤف مناوی نے بحوالہ طبرانی کتاب فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں نقل کیا ہے (فیض القدیر جلد 6 صفحہ 190 حدیث: 8735)۔
اس کے بعد امام اجل حضرت قاضی عیاض مالکیؒ نے راویان کی اسناد کے ساتھ اس کو کچھ یوں رقم کیا ہے۔۔
من سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه۔ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی القسم الرابع، باب الاول، الفصل الثانی صفحہ 171۔
اور اسی طرح امامِ وہابیہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب (الصارم المسلول علی شاتم الرسول جلد 1 صفحہ ،295,287,93 میں نقل کیا ہے
ان دونوں احادیث کو مختلف اسناد کیساتھ مزید 17 معتبر کتب میں درج کیا گیا ہے جنکے حوالہ جات آخر میں درج کر دیے جائیں گے ۔۔
پہلی حدیث جس میں (قُتِلَ و جُلِد ) کے الفاظ ہیں اس میں روای عبیداللہ بن محمد بن عمر بن عبدالعزیز العمری پر محدثین کی جانب سے اس پر متہم بالکذب ہونے کا الزام ہے۔
جبکہ حدیث ” سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه ” جسے امام قاضی عیاض مالکیؒ نے شفاء شریف میں دوسری سند کے ساتھ درج کیا ہے ۔
جس میں تقریباً تمام روای صاحب تصنیف بزرگ و ثقہ ہیں جن میں ” ابو عبدﷲ احمد بن غلبون، امام محدث دارقطنی، ابو ذر الھروی، امام الفارسی محمد بن نوح ہیں :
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابو ذر الھروی کی ہی روایت پر اعتماد کیا ہے آپکو فتح الباری میں ہر دو چار صفحوں کے بعد آپکو “فی روایۃ ابی ذر ” کا لفظ مل جائے گا ۔ یہ ابو ذر الھروی وہی محدث ہیں ،جنہوں نے صحیح بخاری کے تین معروف رواۃ ،المستملی ، الحموی اور الکھشمہینی سے براہ راست صحیح بخاری کو نقل کیا ہے ۔
لیکن پانچویں روای ” عبد العزیز بن حسن بن محمد بن زبالہ کیوجہ سے اس حدیث میں ضعف آ جاتا ہے” امام ذھبی و ابن حجر نے اسی کی وجہ سے آگے کا دروازہ بند کر دیا ہے۔
یہ اس حدیث کی مختصر تخریج بیان ہو گئی اب آتے ہیں درایت و تفصیل کی جانب :
پہلی بات حدیث سنداً اگرچہ ضعیف ہے! لیکن ترغیب و ترھیب و فضائل کے باب میں درجہ اولی مقبول ہے تو اس کا جھوٹا/ من گھڑت ہونا کہاں سے لازم آگیا ؟ دوسری اہم بات اب درایت کا حسن اصول سمجھیں !
اصول محدثین کے تحت : “المقبول ماتلقاہ العلماء وان لم یکن لہ اسناد صحیح“
کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو وہ متواتر کے حکم میں ہو گی۔ یعنی ضعیف حدیث تلقی بالقبول کے سبب صحیح کا حکم رکھتی ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ جب باب احکام میں ضعیف حدیث مقبول تو دیگر ابواب میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔ اسی اصول کے تحت بحوالہ شرح نخبۂ الفکر یہ حدیث بھی متواتر کے درجہ میں آتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ اس حدیث کے مفہوم و متن کا درجہ اولی درست ہونا ہے کیونکہ حضور رسالت مآب ﷺ اور انکے بعد خلفاء راشدین کا اس پر عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے. اور دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ شاتم رسول ﷺ کی سزا بذریعہ قاضی وقت و شرعی عدالت قتل ہے اس پر امت کا اجماع ہے۔ 1400 سال سے امت کا اس حساس مسئلے پر بحکم شرعی حد کا نفاذ و عمل متواتر پر دلالت کرنے والی ضعیف حدیث بھی حسن کہلائے گی ۔ کیونکہ اس سے یہ ایک درجہ اوپر ہوئی یہ سنداً ضعیف ہے لیکن عملاً حدیث حسن ہے کہ فتنوں کے اس دور میں علماء کرام کا بیان کر نا اور عوام الناس کا اس پر تذکرہ حسن کہلائے گا۔ اس حدیث کا مفہوم و متن قرآن و متعدد متواتر مستند احادیث کے دیگر درجنوں دلائل سے ثابت ہے کہ گستاخ کی سزا موت ہے اس کو قتل کیا جائے گا لہذا یہ مسئلہ اتنا واضح اور بین الثبوت ہے کہ اس کے متعلق اگر کوئی سخت ضعیف روایت بھی آ جاتی ہے تو اس مسئلہ پر کوئی زد نہیں پڑتا، بلکہ ان صریح وصحیح احادیث کی روشنی میں وہ ضعیف روایت بھی سند کے ضعف کے باوجود صحیح المتن شمار ہوگی، لہذا اس حدیث کو پھیلانے اور اسے زبان زد عام کرنے میں کوئی حرج نہیں،
تمام آئمہ و علماء اس متواتر عمل ضعیف حدیث کے متن کی صحت کا اعتراف کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ متعدد علماء نے اس حدیث کو کئی بطور شماریات مشہور زمانہ اپنی اپنی تصانیف میں درج کیا ہے جو تمام کی نگاہ میں معتبر ہیں جن کی تخریج مندرجہ ذیل ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
1) معجم الصغیر للطبرانی ج 1 ص 136 رقم الحدیث 659 یا 660
2) المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث 4602
3) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ مترجم ج 2 ص 202 شبیر برادرز
4) الشفاء باحوال المصطفیٰ عربی ج 2 ص 136
5) فوائد تمام الرازی رقم الحدیث 740
6) الاربعین المرتبۃ علی طبقات الاربعین لا بن المفضل المقدسی ج1 ص 460
7) تاریخ دمشق لابن عساکر ج 38 ص 103 رقم الحدیث 38854
8) تاریخ بغداد للخطیب ج 18 ص 90
9) مجمع الزوائد و منبع الفوائد ج 6 ص 260
10) جامع الاحادیث ج 20 ص 368
11) الفردوس بماثور الخطاب باب میم ج 3 ص 541
12) شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ ج 7 ص 334
13) سبل الھدی والارشاد فی سیرۃُ خیر العباد ج 12 ص 30
14) احکام اھل لزمۃ ج 3 ص 1455
15) الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج 1 ص 93 ، 287 ، 295
16) فتاویٰ السبکی امام تقی الدین سبکی ج 2 ص 582
17) السابق والا حق الخطیب البغدادی ج 1 ص 85
18) نھایۃ المطلب فی درایۃ المذھب ج 18 ص 47
19) الوسیط فی المذھب ج 7 ص 87
20) الفتاوی الکبریٰ لا بن تیمیۃ ج 5 ص 256
عمر شہزاد خان ” سُطانی سالِکؔ “
ماشاءاللہ جناب بہت اعلی اللہ پاک آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین
MashAllah ❤️ Sir
اللّٰہ پاک اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے آپ پر کرم فرمائے آمین
MashAllah
تاجدارِ ختّمِ نبّوت ﷺ
زندہ آباد زندہ آباد زندہ آباد