یوم تجدید عہد وفا

Article by Amina Bint-e-Sajjad
تئیس مارچ 1940 تاریخ پاکستان کا ایک عظیم دن کہ جب برصغیر کے مسلمان اپنے قائد کی قیادت میں منٹو پارک میں اس عہد کے ساتھ اکٹھے ہوۓ کہ
لے کے رہیں گے آزادی، بن کے رہے گا پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا کیا لاالہ الا اللہ
تئیس مارچ کو مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منٹو پارک (جو کہ آج گریٹر اقبال پارک مینارِ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے) کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اے کے فضل الحق نے قراداد پاکستان پیش کی جس میں یہ مطالبہ رکھا گیا کہ مسلمان اپنی الگ مذہبی، ثقافتی، اقدار و روایات رکھتے ہیں لہٰذا مسلم اکثریت والے صوبہ جات کو ملا کر مسلمانوں کے لئے ایک الگ خود مختار اسلامی ریاست قائم کر دی جاۓ۔ اس دن کو آج قرار داد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 24 مارچ کو قرار داد کے واضح اکثریت سے منظور ہوتے ہی تحریک پاکستان زور پکڑتی گئی اور بالآخر 14 اگست 1947 کو 27 رمضان المبارک کی بابرکت رات، پاکستان پاک دھرتی دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آیا۔
یہ دن ہمیں اس عہد کی یاد کرواتا ہے جس کو وفا کرتے ہوئے
لاکھوں نے جان مال کی قربانی دی، کئی بیٹیوں نے اپنی عصمت بچاتے ہوئے نہروں میں کود کر جان دے دی اور کئی بیٹیاں سکھوں کے قبضے میں رہ گئیں، گویا قیام پاکستان آہوں اور سسکیوں کے درمیان لکھی جانے والی ایک ناقابل فراموش داستان ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں برصغیر کے مسلمانوں نے آزاد خود مختار ریاست کا مطالبہ کیا؟
مقصد صاف اور واضح تھا دو قومی نظریہ
یوں تو دو قومی نظریہ کی بنیاد 1867 میں ہونے والے ہندی اردو تنازعہ کو سمجھا جاتا ہے جب سر سید احمد خان نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں “ایک ہندو اور ایک مسلم” اور مسلمان اپنی الگ شناخت اور حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن دو قومی نظریہ کی بنیاد در حقیقت حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے رکھی جب ہندو، اکبر بادشاہ کے ذریعے دین اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے تب حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اعلی کردار ادا کیا اور ہندو سازشوں کو ناکام کیا ۔ نواۓ وقت کے ایک کالمسٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپور شریف صاحبزادہ میاں ولید احمد جواد شرقپوری کا کہنا تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ دوقومی نظریے کے بانی ہیں ۔ برصغیر میں رونما والے بعد کے حالت و واقعات انکی دور اندیشی کو ثابت کرتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہرگز ممکن نہیں ہو سکتا تھا ۔
علامہ اقبال نے 1937 میں قائد کے نام جو خطوط لکھے اس میں یہ پیغام واضح تھا کہ اگر برصغیر کے مسلمان اپنی سیاسی جدو جہد سے محض آزادی اور اقتصادی فلاح و بہبود چاہتے ہیں نہ کہ ایک ایسی ریاست جو اسلامی شریعہ اور اسلامی قوانین پر قائم ہو تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل ایک آزاد خود مختار اسلامی ریاست ہی ہے۔
لیکن آج ہم جس وطن عزیز کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں کیا ہم نے اسکا حق ادا کیا کیا ہم مقصد قیام پاکستان کو پایہٕ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے؟
آزاد ریاست حاصل کرنے کے بعد ہمارے منصب اعلٰی پر فائز بااختیار لوگ اور خود ہم بحیثیت قوم اس عظیم مقصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا اور جس کی تعبیر میں ہمارے آباؤ اجداد نے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔
آج بھائی بھائی کا دشمن بنا بیٹھا ہے، بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ نہیں، پورا معاشرہ جنگل راج کی لپیٹ میں ہے، طاقتور کمزور کو انسان نہیں جانتا، عدالتیں انصاف سے محروم ہیں اور قانون غریب اور کمزور کے لئے اندھا بن چکا ہے امیر مزید کی طمع و لالچ میں مدہوش ہے اور غریب بیچارا ضرورتیں پوری کرنے سے پریشان، اقتدار اعلٰی طاقت و دولت کے نشے میں چُور، دین دشمن عناصر کے ہی آلہ کار بنے بیٹھے ہیں اور وطن عزیز کو لادینیت اور مذہبی تقسیم کی فضاء نے جیسے گھیر رکھا ہے۔
آج اس قوم کا نوجوان سوال کرتا ہے اس ملک نے مجھے کیا دیا کیوں کہ ہمیں تو یہ ریاست پلیٹ میں رکھ کر ملی ۔ آج کا نوجوان نہ نظریہ پاکستان سے واقف نظر آتا ہے نہ ہی تاریخ پاکستان سے۔ ہم نے اپنی بنیادیں کھو دیں اور یوں آزاد ہو کر بھی ذہنی طور پر غلام ہیں۔ ہماری نئی نسل اغیار کے تہذیب و ثقافت سے مرعوب اور اسکی اندھی تقلید میں مصروف ہے اور ہمارے اقتدار اعلیٰ اپنے ذاتی مقصد کے حصول میں اغیار کو خوش کرنے میں، کیا اسی لئے بنا تھا پاکستان؟
اور اقبال کیا خوب لکھتے ہیں
در غلامی عشق و مذہب را فراق
انگبین زندگانی بد مذاق
پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسکے پرچم پر موجود سبز رنگ صرف اس خطہ کے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ دین اسلام کو اپنی زندگی کا شعار بناۓ بغیر وطن عزیز کی ترقی ناممکن ہے۔
آئیں آج اس یوم پاکستان کے موقع پر سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں لہرانے کے ساتھ ساتھ یہ عزم کریں کہ ہم کسی ادارے اور حکومت سے شکوہ کرنے سے پہلے خود اپنی اصلاح کریں گے۔
آئیں عزم کریں کہ اپنی زندگیاں دین اسلام اور قوم و ملت کی خدمات میں صرف کریں گے۔ دین اسلام کو اپنی زندگی کا شعار ملک و قوم کی ترقی کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو استمال کرتے رہیں گے۔ وطن عزیز ہمارا گھر ہے اور ہمیں اسکی گلیوں سڑکوں کو بالکل ویسے ہی صاف ستھرا رکھنا ہے جیسے اپنی رہائش گاہ کو رکھتے ہیں۔ اپنی اصلاح کے لئے کھلے ذہنوں کے ساتھ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور اپنی نئی نسلوں کو نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہیں گے۔
آئیں تجدید عہد وفا کریں کہ اپنے حصہ کا دیا جلاتے رہیں گے۔ قومیں افراد سے بنتی ہیں اگر ہر فرد خواہ کسی بھی شعبہ ہاۓ زندگی سے تعلق رکھتا ہو اپنے فرائض و ڈیوٹی محنت اور دیانت داری سے انجام دے تو ہم معاشرے میں مختلف لیولز پر پائی جانے والی کرپشن کے ناسور کا کافی حد تک خاتمہ کر سکیں گے۔ اپنے معاملات میں انصاف پسندی اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں تو کسی حد تک معاشرے میں امن و سکون قائم ہو سکے گا۔ دیے سے دیا جلائیں اور قیام پاکستان کے عظیم مقصد کو حصول کو ممکن بنائیں ہر قسم کی صوبائی، لسانی، جغرافیائی علاقائی اور ذات برادری کی تقسیم سے بالاتر اپنی صفوں میں اتحاد اور تنظیم پیدا کر کے کیوں کہ بقول اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کو مقّدر کا ستارا
اور اگر بات کریں سیاسی شعور کی یوں تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سی سیاسی مذہبی جماعتیں گزری جو نظریہ پاکستان کے تحفظ کی دعوے دار بنیں لیکن حقیقی معنوں میں اگر کسی جماعت نے میدان عمل میں آ کر کام کیا ہے تو وہ ہے تحریک لبّیک پاکستان۔ اس جماعت کے بانی امیر المجاہدین خود تو وہیل چئیر پر تھے لیکن اس قوم کے نوجوانوں کو حق کی راہ پر چل کر قربانیاں دینا سکھا گئے۔ آپ نے ایک بار پھر کلام اقبال کے ذریعہ اس قوم کی غیرت اور خودی کو للکارا اور نوجوانوں کو بتایا کہ ملک پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پر ہے اور یہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اپنی نظریاتی بنیادوں کی طرف نہ لوٹ جائے۔ آپ نے اس قوم کے نوجوانوں کو ایک عظیم مشن دیا دین کو تخت پر لانا۔ آپ نے نوجوانوں کو تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار اور مجاہدین کے واقعات سناتے رہے اور انہیں بتایا کہ پوری امّت مسلمہ جو اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے وہ جہاد کے ذریعے سے ہی اپنا کھویا ہوا وقار واپس پا سکتی ہے۔ آج امیر المجاہدین کے اس مشن کو انکے صاحبزادے علامہ سعد حسین رضوی آگے لے کر چل رہے ہیں اور اس مشن میں قید و بند کی صعوبتیں بھی سہہ چکے ہیں۔ آج ہمارا دشمن ہماری صفوں میں بھیس بدل کر موجود ہے جس کا مقصد اسلام کے نام پر بننے والی عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست کو کمزور کرنا ہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ یہ قوم سیاسی طور پر بیدار ہو۔ لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے عوام روٹی کپڑا اور مکان اور سڑک کے جھوٹے نعروں سے بیوقوف بننے کی بجاۓ ایک ایسی جماعت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں جس کے قائدین نے اب تک سب سے زیادہ دین کی خدمت میں قربانیاں دیں بلکہ ارضِ وطن کے نظریاتی تحفظ کے لیے ہمیشہ آواز بھی بلند کی۔
نہ سر جھکا کے جیئے، نہ منہ چھپا کے جیئے
ستم گر کی نظروں سے نظریں ملا کے جیئے
تحریر: آمنہ بنت سجاد