عورت قصوروار کیوں؟
Article By Noor Jaan
میرا آج کا موضوع بہت حساس ہے اور کسی حد تک دلخراش بھی۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ بظاہر تو ایڈوانسڈ اور ترقی یافتہ ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں ہر چیز کا ذمہ دار عورت کی ذات کو ٹھہرایا جاتا ہے! قصور وار ہمیشہ عورت ذات ہی کیوں؟ مرد کو اللہ پاک نے حاکمیت عطا فرمائی ہے، اس کا درجہ معاشرے میں عورت کی نسبت بڑا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ عورت کو ہر خرابی کا ذمہ دار قرار دے کر اس کو اذیت سے دوچار کیا جائے؟
جاہلانہ طور طریقے اور دورِ جاہلیت کی روایات پھر سے طول پکڑ رہی ہیں اور ہمارے معاشرے کے افراد بری طرح سے اس کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ معاشرے کی ساکھ قائم نہیں رہی اور اسلامی اقدار کا تحفظ بھی ممکن نہیں رہا۔ وہ عورت جسے اسلام نے ہر طرح سے عزت و تکریم کا درجہ عطا کیا ہے، جاہلانہ طرز کے تحت اس پر ظلم و سفاکیت کی انتہا ہو رہی ہے۔
دور جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے کا رواج تھا (آج بھی ایسا ہو رہا ہے، طریقہ مختلف ہے بس)۔ جس کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی وہ منہ چھپائے پھرتا اور معاشرے میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے بیٹی کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا۔ پھر ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ تشریف لائے اور ہمیں ایک ایسے خوبصورت دین سے بہرہ ور فرمایا جس نے ہمیں زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط اور آداب و اطوار سے روشناس کروایا۔ وہ پیارا دینِ اسلام جس نے بیٹیوں کے سر پر عصمت کی چادر رکھی اور معاشرے میں انہیں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔ کرم کی حد یہ ہو گئی کہ اللّٰه پاک نے بیٹیوں کو اپنی رحمت قرار دے دیا۔ وہ بیٹی جسے کل تک زحمت تصور کیا جاتا تھا، آج باعثِ رحمت قرار دے دی گئی۔ یاد رہے، ہم سے نعمتوں کا تو حساب ہو گا مگر رحمتوں کا حساب نہیں ہو گا، کیونکہ رحمت فضل ربانی ہے وہ جسے چاہے عطا فرما دے اور یہ کسی حساب میں بھی نہیں آتی۔
حال ہی میں ہونے والے ایک دل سوز واقعے نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ایک ایسا قیامت خیز منظر جس نے میری روح تک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک شخص جو کہنے کو تو معصوم ننھی سی جان کا باپ تھا، مگر ظلم کی حدوں کو چھوتے ہوئے اس ظالم نے اپنی معصوم سی بیٹی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا، اور یہ سب کرتے ہوئے اس درندہ صفت انسان کے ہاتھ بھی نہ کانپے۔ ایسا رویہ تو کوئی درندہ بھی اپنی اولاد کے ساتھ نہیں کرتا۔ اولاد سے محبت ایک فطری عمل ہے، جو ہر جاندار میں بدرجہ اولیٰ پایا جاتا ہے۔ پھر ایسا کیا تھا جس نے اس شخص کو اس قدر سفاکانہ عمل کرنے پر اکسایا۔
اس معصوم سی جان کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ اس ظالم کی پہلی اولاد کیوں تھی؟ کیا پہلی اولاد بیٹی ہونا اتنا بڑا جرم تھا؟ آج ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں، ہر دوسرے گھر میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ عورت کی اولاد بیٹی کیوں ہے؟ بیٹا ہونا چاہیے تھا! اور جس کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوں اسے طعنے دے دے کر جیتے جی مار دیا جاتا ہے، اور بات طلاق یا اولاد کے قتل تک جا پہنچتی ہے، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سب میں عورت کا کوئی ذاتی عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔ یہ سب دین سے دوری اور معاشرے کے خودساختہ معیاروں پر پورا اترنے کی بے سود کوششیں ہیں جس سے ہمارے معاشرے کا سکون تباہ و برباد ہو گیا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ، پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے۔ یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے، بے شک وہ علم وقدرت والا ہے
پارہ:۲۵، سورۂ شوریٰ :آیت۵۰،۴۹
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اولاد اللّٰه پاک کی عطا ہے، وہ جو جسے چاہے عطا فرمائے اور جسے چاہے نہ عطا فرمائے۔ تو ایسے میں عورت کو قصوروار ٹھہرایا جانا شرعاً غلط اور ناجائز ہے۔
آج کے معاشرے میں ہم انسان ہر چیز کو سائنسی تحقیق کے مطابق جانچتے ہیں اور جو نتیجہ اس مشاہدے کے بعد ملتا ہے وہی قابل قبول ہوتا ہے۔ تو آئیے اسی عمل کو سائنسی اعتبار سے ملاحظہ کیجئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ عورت کا قصور کہاں ہے؟
اللّٰہ پاک نے ہر جاندار کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں۔ اور اولاد کی جنس کا تعین دونوں میں سے کسی ایک پر منحصر ہوتا ہے۔ سائنس کے مطابق انسانوں میں جنس کے تعین کا انحصار مرد پر ہوتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے جنس کے تعین کا عمل فرٹیلائزیشن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ فرٹیلائزیشن ایک ایسا عمل ہے جہاں نر اور مادہ کے جراثیم کے خلیے مل کر ایک زائگوٹ بناتے ہیں۔ جراثیم کے خلیے وہ ہوتے ہیں جو فرٹیلائزیشن کے دوران والدین سے اولاد تک جینیاتی معلومات لے کر جاتے ہیں۔ جب نر اور مادہ کے جراثیم کے خلیے آپس میں ملتے ہیں تو زائگوٹ متعدد خلیوں میں تقسیم ہونے کے بعد ایمبریو بن جاتا ہے۔ ایمبریو میں ہر والدین کی جینیاتی معلومات کے مجموعے کا کچھ حصہ شامل ہوتا ہے، بشمول ہر والدین کا جنسی کروموسوم۔
دراصل جنسی کروموسوم کا ایک مجموعہ جو ایمبریو کو جراثیم کے خلیوں سے وراثت میں ملتا ہے، اس بات کا تعین کرتا ہے کہ بعد میں یہ ایمبریو کس حیاتیاتی جنس کے طور پر پروان چڑھے گا۔
نر میں جنسی کروموسوم کا سیٹ (ایکس وائے) ہوتا ہے جبکہ مادہ میں جنسی کروموسوم کا سیٹ (ایکس ایکس) موجود ہوتا ہے۔ نر کے جراثیم کے خلیوں میں موجود (وائے ایکس) کا سیٹ دو طرح کے خلیوں (ایکس) اور (وائے) میں بٹ جاتا ہے۔ اور مادہ کا چونکہ مشترک سیٹ ہوتا ہے اس لیے اس سے (ایکس) بنتا ہے۔ اب اگر نر کا (ایکس) مادہ کے (ایکس) سے ملتا ہے تو ایمبریو حیاتیاتی جنس مادہ(عورت) کے طور پر پروان چڑھے گا۔ اور اگر نر کا (وائے) مادہ کے (ایکس) کے ساتھ ملتا ہے تو ایمبریو حیاتیاتی جنس نر(مرد) کے طور پر پروان چڑھے گا۔
اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ انسانوں میں جنس کا تعین کرنے والا خلیہ مرد کے جراثیم کے خلیوں سے بنتا ہے۔ یوں سائنسی اعتبار سے بھی عورت بےقصور ہے تو پھر کیوں اس سب کا ذمہ دار عورت ذات کو گردانا جاتا ہے؟
ان خلیوں کے ملاپ میں نہ تو مرد کا کوئی اختیار ہے نہ ہی عورت کا، جیسا کہ قرآن پاک کی آیہ کریمہ سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ تو اللّٰه پاک کی مرضی ہے وہ جسے چاہے بیٹا عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹی۔
اب کوئی صاحب عقل و دانش مجھے بھی یہ بات سمجھا دے کہ عورت کو قصور وار ٹھہرانا کس حد تک جائز ہے؟ عورت کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ بچے کو اپنے بطن میں 9 ماہ تک پیدائش سے پہلے نشوونما کروانے کی ذمہ دار ہے اور پیدائش کے تکلیف دہ مراحل سے گزر کر زندگی و موت کی جنگ لڑنے کے بعد صلہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس پر لعن طعن کیا جاتا ہے، اس کے سامنے اس کی اس اولاد کو جس کو اس نے اتنے ماہ تک سنبھال سنبھال کے رکھا ہوتا ہے، سفاکیت کی حدوں کو چھوتے ہوئے ہلاک کر دیا جاتا ہے!!
انتہائی بوجھل دل کے ساتھ یہ تحریر مکمل کر پائی، مگر ہم سب کو اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا اور عورتوں پر ظلم کو لگام دینا ہو گی۔ یہ اللّٰہ پاک کی قائم کردہ حدود ہیں اور ہم اپنی مرضی سے ان میں ردوبدل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کر کے سوائے ذلالت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
خدارا! حقیقت کو سمجھیے، اسلام کی معاشرتی اقدار و روایات کو پامال نہ کیجئے اور ایک پرامن مثالی معاشرے کے قیام کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔
تحریر: نورِ جان
ماشاءاللہ ، بہت معلوماتی مضمون