طاغوتی نظام کو للکارتا ہوا سعد
Article by Abrish Noor
الیکشن 2024 کے نتائج ملنے کے بعد مجھ سمیت تمام کارکنان کے دل ٹوٹ گئے اور اپنی ہار کو دیکھنے کے بعد ہم ہر چیز پر تبصرے کرتے ہوئے اپنے ہی قائد کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اس ہار کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ ہم یہ بھول گئے کہ ہم ہار جیت یا اقتدار کے لیے نہیں تھے بلکہ باباجی کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہم ایک مقصد کی خاطر فیض آباد آئے تھے۔
کامیابی یا جیت حاصل کرنے کے مراحل راتوں رات طے نہیں ہو جاتے اس کے پیچھے کئی سالوں اور دہائیوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔
آج آپ سوشل میڈیا، گلیوں، چوراہوں پر تبصرے کر تو رہے ہیں مگر سوچیں اس مقصد کی خاطر سعد السعود جو پچھلے جانے کتنے مہینوں سے نہیں سوئے ہوں گے آپ سے کس نے کہہ دیا اس نازک وقت میں سوئے ہیں؟ آپ سے زیادہ اگر کوئی تکلیف میں ہے تو وہ آپکا قائد ہے، مگر اسکا حوصلہ دیکھیں، کہیں نہ تھکن ہے نہ مایوسی ہے نہ ہی کوئی ناامیدی۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ سعد رضوی کو چاہیے تھا اسی وقت نکل پڑتے۔ چلیں مان لیا باہر نکلیں!
تو ہمارے ملک میں احتجاج کے نام پر جنازے اٹھتے ہیں ان خاندانوں کا کیا ہوتا؟ ان گھروں کی کفالت میں اور آپ کرتے؟
یا پہلے جتنے شہداء ہیں ان میں سے کتنوں کے گھروں کی خبر ہم رکھ رہے ہیں؟ نظام بدلنا کسی ایک کا کام نہیں بلکہ مجھے سمیت ہر شخص پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ہم نے اپنی کونسی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے؟
جب آپ گرم بستر میں تھے اور یہی نوجواں تھا جس نے اپنا سکون آرام چھوڑ کر دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں نظریے کا علَم تھامے اپنی منزل کی جانب کوشاں تھا جو جنوری کی یخ بستہ سردی میں بھی اسی جوش و ولولے کے ساتھ کھڑا رہا جو ورثہ میں پائی.
یہ راہ حق پر جو گامزن ہیں لگا چکے ہیں سروں کی بازی
جو سر سلامت رکھے ہوئے ہیں انہیں کو سردار چن رہا ہوں.
وہ چاہتا تو عمران خان کی طرح سلیکشن کروا کر اپنے کارکنان کو دھوکہ دے سکتا تھا، نواز شریف کی طرح آسکتا تھا مگر وہ شیر کی کچھار میں پلنے والا سعد تھا جس نے کہا تھا
“مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے۔”
آپ اور میں تو ایک ووٹ کی مشقت کی وجہ سے کہنے لگے ہیں کہ ہمارے ووٹ کی حفاظت نہیں ہوئی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں ہمارا مقابلہ بیک وقت کئی طاغوتی طاقتوں سے ہے باقی پارٹیاں صرف مخالف پارٹیوں سے لڑ رہی ہیں مگر ہم بیک وقت، قادیانیوں، کافروں، یہودیوں، عیسائیوں، لبرلز، اشرافیہ، یہود ونصاریٰ کے پیسوں پر پلنے والا میڈیا، دین بیزار اسٹیبلشمنٹ، فحاشی سے لڑ رہے ہیں۔ کیا صرف چند سالوں میں ان سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا ؟ آپ یہ بھی تو سوچیں نا آپکے لیڈر کا اتنا خوف ہےکہ اسے اسمبلی میں جانے سے روکنے کیلئے ادارے کا وقار داؤ پر لگایا گیا۔ اس بات پر فخر محسوس کرنے کے بجائے ہم الٹا مایوسی کی دلدل میں پھنس گئے۔
ہمارے اسلاف باطل کے سامنے جب کھڑے ہوئے تو کیا وہ جنگ چند سال رہی؟ سلطنت عثمانیہ کیا دو چار سالوں میں بن گئی تھی؟ سومنات پر سولہ حملے کئے گئے تو سترہواں کیوں کیا؟ جب سولہ بار ناکام رہے۔
سعد رضوی صاحب پہلے ہی اپنے انٹرویو میں نوجوانوں کو پیغام دے چکے ہیں۔
اپنے عزم کو بلند رکھیں۔ یہ پلپلی، ٹھنڈی، اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے دین تخت پر نہیں آئے گا۔
دین تخت پر اسی رویے سے آئے گا جو امیر المجاھدین کا تھا جو بات امیر المجاھدین کی تھی وہ جذبہ امیر المجاھدین کا تھا اسی جذبے سے دین تخت پر آئے گا۔ تو بتائیں امیر المجاھدین کی تو ساری عمر گزر گئی یہ جنگ لڑتے لڑتے۔ بابا جی جانتے تھے میں اور آپ کمزور ہیں اس راستہ میں آنے والے کانٹوں سے خوفزدہ ہوں گے اس لیے وہ ہمیں پہلے بتا گئے۔
ہم سے محبت وہی کرتا ہے جو کہیں کہ یہ لبیک والے آئیں نہ آئیں میں ایک نظریے کو ووٹ دے رہا ہوں جیتنے جتانے کے لیے نہیں دے رہا۔ یہ ووٹ انہی کے لیے ہے، یہ ووٹ انہیں کامیاب کرے یا نہ کرے۔
“میں ختم نبوت ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوں”
“ناموس رسالت ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوں”
یہ ووٹ انہیں کے لیے ہے۔
یہ ووٹ انہیں کامیاب کرے یا نہ کرے
مگر، میں قیامت والے دن اس نظریے والوں کے ساتھ پایا جاؤں گا۔
اب آج جو سعد رضوی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے جج بنے بیٹھے ہیں تو بابا جی رحمتہ اللہ علیہ کی ان باتوں کا کیا کریں گے؟
ہم نے ووٹ عمران، نواز یا بھٹو کیلئے نہیں دیا بلکہ ہم نے ووٹ رسول اللّہ ﷺ کے نظام کیلئے دیا ہے تو پھر جھگڑا کیسا؟
خود کو بدلیں!
آج فیصلہ کر لیں یا تو ہم موت تک بغیر “چوں بہ جبیں” کیے اپنے مقصد کی خاطر ہر طرح کے مشکل حالات میں بھی ساتھ دیں گے یا پھر اسی بوسیدہ کھوکھلے نظام کا حصہ بن جائیں گے اب یہ فیصلہ آپ نے اور میں نے کرنا ہے۔
یہ سفر ہے کوئے جاناں
یہاں قدم قدم پر بلائیں
جسے زندگی ہو پیاری
وہ یہیں سے لوٹ جائے
یہ عظیم سفر بزدل لوگ طے نہیں کرسکتے۔ اس راہ میں تو قربانیاں ہیں، صبر کا راستہ ہے، ثابت قدمی، بھروسہ، یقین اور امید ہے پھر جاکر فاتح قرار پائیں گے، تب جاکر کندن بنیں گے۔
جس طرح سونے چاندی کو آگ کی بھٹی میں مختلف عوامل اور حالتوں سے گزارا جاتا ہے، تب کہیں جاکر خالص سونا چاندی تیار ہوتے ہیں، اسی طرح اہل ایمان بھی مختلف تکالیف اور مشقتوں میں صبر سے نکلنے کے بعد کندن (اعلیٰ درجے کے مومنین) بن جاتے ہیں۔
جب خواب بڑے ہوتے ہیں تو حوصلے بھی بلند رکھنے چاہئیں۔ اور آنے والے مسائل کا کھلے دل سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں نا کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
میرا یقین ہے کہ بیج بابا جی رحمتہ اللہ علیہ نے بویا تھا اب تناور درخت بننے کا وقت آنے والا ہے مگر پہلے موسم کی سختیوں سے گزرنا ہوگا پھر نظام مصطفیٰ ﷺ کی کونپلیں پھوٹیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
اللّہ تعالیٰ مجھے اور آپکو حق کے راستے پہ ثابت قدمی کے ساتھ ہمیشہ گامزن فرمائے۔ آمین
تحریر: ابرش نور