ایمان اتحاد تنظیم
Article by Bint E Sajjad
باباۓ قوم کے تین رہنما اصول ایمان اتحاد تنظیم قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں. قائداعظم نے 28 دسمبر 1947ء کو خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر قوم ایمان اتحاد اور تنظیم کو اپنا نصب العین بنا لے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم بڑی سے بڑی طاقت اور مشکل حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے 11 ستبمر ء1948 کو طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہی تین نکاتی اصولوں پر چلنے کی تلقین کی۔
ایمان: اللّه پاک کی ذات پر کامل یقین اور توکل اور اسکے حبیب کریم ﷺ کی اطاعت و محبت ہے۔ مردِ مومن اپنے تمام معاملات میں کسی قسم کے مالی اسباب اور افراد کی تعداد کی بجاۓ اللّه پاک پر بھروسہ اور اسی کی مدد کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جذبہ جہاد کی بنیاد بھی یہ ایمانی قوت ہی ہے، جس کی بدولت مسلمانوں نے عرب کے صحرا سے نکل کر قیصر و کِسری جیسی طاقتور سلطنت کو تسخیر کیا اور عرب سے عجم تک اپنی جرأت و بہادری کا لوہا منوایا ۔ یہ وہی جذبہ ایمانی اور عشقِ مصطفیٰﷺ کی قوت تھی جس کی بدولت مسلمانوں نے سلطنتِ عثمانیہ مغلیہ سلطنت جیسی عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں۔ ارضِ وطن پاکستان کا حصول بھی کلمہ کی طاقت کی بدولت ممکن ہوا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
قائد کا خیال تھا کہ مسلمانوں کا شاندار اور قابلِ فخر ماضی انکے کامل ایمان، علم و حکمت کی بدولت تھا۔ یہ ایمان کی قوت ہی تھی جسکی بِنا پر مسلمانوں نے پورے عالم میں اپنے علم و حکمت، تدبر اور فکر سے روشنی کی کرنیں بکھیریں۔ مغربی ترقی یافتہ قومیں جن جدید سائنسی علوم سے فائدہ اٹھا رہے وہ بھی مسلمان سائنسدانوں کی مرہون منت ہے۔ جابر بن حیان باباۓ کیمیا، ابن الہیثم اور دنیا کے پہلے کیمرے کے موجد، محمد بن زکریا رازی دنیا کے پہلے تپ دق کے طبیب، ابن سینا کی کتاب القانون، ریاضی میں الجبرا مسلمانوں کی ایک بہت بڑی ایجاد غرض کہ ہر شعبہ ہاۓ زندگی میں انہوں نے اپنی تحقیق اور علم و حکمت سے چراغ روشن کئے۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
تاریخ گواہ ہے کہ عظیم مسلمان حکمرانوں نے اپنے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن تھام کر پُروقار فتوحات حاصل کیں لیکن افسوس آج ہمارا نوجوان اپنے اسلاف کی سوچ و فکر اپنانا تو دور انکے عظیم کارناموں سے بھی ناواقف ہے۔ آج جب کہ مسلم قوم نے اپنے اسلاف کی روایات اور دینی تعلیمات سے کنارہ کشی کی تو انکی ایمانی قوت بھی کمزور پڑ گئی نتیجتاً جذبہ جہاد کی جگہ بزدلی نے لی اور یوں اپنی غیرت و حمیت بھی کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں دیکھو مسلم قوم ظلم و ستم اور ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اتحاد: قائداعظم کا دوسرا رہنما اصول اتحاد۔ خاندان مل کر معاشرہ تشکیل دیتے ہیں اور معاشرے مل کر ریاست۔ برصغیر کے مسلمان اپنے قائد کی رہنمائی میں ایک پرچم تلے اکھٹے ہوئے اور حصول پاکستان کے لئے ایک تاریخی اتحاد کی مثال قائم کی۔ قائد چاہتے تھے کہ آزادی کی جدوجہد میں کامیابی کے بعد پوری قوم پھر سے متحد اور یکجا ہو قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرے۔ یہ مِلی و قومی اتحاد ہی ہے جس کی بدولت پاکستان دنیا کے ہر میدان میں ترقی اور پر وقار مقام حاصل کر سکتا ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد اسے اسلام کا قلعہ بنانا تھا۔ ایک ایسی ریاست جسکے سبز ہلالی پرچم تلے امت مسلمہ متحد ہو کر اقوام عالم میں اسلام کا جھنڈا سر بلند رکھے۔ کیوں کہ دین اسلام ہی حق ہے جو قیامت تک ہر دور کے بنی نوع انسان کے تمام مسائل و معاملات کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور جس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر پوری دنیا میں امن و سکون کی فضاء بر قرار رکھی جا سکتی ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
تنظیم: تنظیم مطلب نظم و ضبط، کسی بھی ادارہ یا ریاست کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے قوانین اور اصول و ضوابط پر عملداری یقینی بنانا لازم ہوتا ہے۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست کے قوانین قرآن و سنت کے احکامات کے ہی تابع ہونے چاہیے۔ مملکت اسلامیہ پاکستان خالصتاً اسلام کے نام پر بنا اور اسکے حصول کا مقصد نظام مصطفیٰﷺ کا نفاذ ہے تاکہ عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا جائے کہ جہاں بسنے والا ہر شخص خود کو بنا کسی لسانی علاقائی، اور مذہبی تفریق کے محفوظ سمجھے اور یہاں رہنے کا خواہش مند ہو۔
خود قائداعظم کی زندگی سے نظم و ضبط کے بے شمار واقعات کی مثال ملتی ہے۔ انہوں نے کبھی اصول و ضوابط سے سمجھوتہ نہیں کیا۔وہ اپنے عہدے اور پروٹوکول کا نہ کبھی فائدہ اٹھاتے تھے نہ کسی کو ایسا موقع دیتے۔
ایک ایسا ہی واقعہ ہے 25 اکتوبر1947ء کو جب عید الاضحی کی نماز کے لئے آپ مقررہ وقت پر عید گاہ نہ پہنچ سکے تو اس وقت کے اعلی حکام نے مولانا ظہورالحسن درس سے نماز کی ادئیگی آپکے تشریف لانے تک مؤخر کرنے کی درخوست کی جس پر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں یہاں اللّه عزوجل کے لئے نماز پڑھانے آیا ہوں ۔ ابھی نماز کی پہلی رکعت شروع ہوئی تھی کہ قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ اعلی حکام نے آپ سے اگلی صف میں کھڑے ہونے کی درخواست کی تو قائد نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ آپکے برابر کھڑے نمازیوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ کسی عام شہری نے نہیں بلکہ ریاست کے سربراہ نے نماز ادا کی ہے۔ نماز کے بعد قائد نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کو سراہا کہ ہمارے علماءکرام کو ایسے ہی مضبوط کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
قائد جانتے تھے کہ اگر قوم کو مربوط تنظیمی سانچے میں ڈھال دیا جائے تو پھر ترقی کے منازل طے کرنا آسان ہو جائے گا جبکہ نظم و ضبط کی عدم موجودگی ریاست میں لاقانونیت، انارکی اور انتشار کا باعث بنتی ہے۔
قائد کے یہ تین رہنما اصول قوم کے لئے منشور کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن افسوس قیام پاکستان کی 7 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم بحثیت قوم آج تک ان اصولوں پر عمل نا کر سکے۔ قائد اعظم کے بعد ارضِ وطن آج بھی مخلص قیادت سے محروم ہے۔ پاکستان امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ اس مرکز کے ذریعے پوری امت مسلمہ کو یکجا کیا جاتا الٹا ارضِ وطن کے قیام کے کچھ عرصہ بعد 1971ء میں ہی نااہل حکمران مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پچھلے 75 سال سے یہاں مغرب کے ذہنی غلام قابض ہیں جنہوں نے ڈالر کے عوض گویا اپنی غیرت و حمیت کا سودا ہی کر ڈالا۔ ہماری دین سے دوری نے معاشرتی اقدار و اخلاقیات کو تباہ کیا۔ ایک طرف اداروں کو ہر سطح پر کرپشن کے ناسور نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف ملکی معاشی صورتحال بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں سیاستدان ہیں کہ اپنے اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قوم مذہبی تفرقات کے ساتھ ساتھ لسانی، علاقائی،سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہے۔
وطن پاکستان کو مخلص، مدبر اور صاحب بصیرت رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اپنے ذاتی مفادات اور اپنی اناؤں کے خول سے باہر نکل کر ملکی مفاد کے لئے درست فیصلے لے سکیں۔ ہمیں ایک ایسا قائد چاہیے جسکی رہنمائی میں ہم قیام پاکستان کے مقصد حاصل کر سکیں اور اسے صحیح معنوں میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جا سکے اور جو نہ صرف انتشار کا شکار اس ہجوم کو قوم میں بدلے بلکہ پوری امت مسلمہ اسکی قیادت میں متحد ہو جائے۔ انشاء اللّه ایسا ہو کر رہے گا جب شہیدوں کے لہو سے سیراب ارضِ پاک کی قیادت اسکے حقیقی وارث کے ہاتھوں میں ہوگی
جیسا کہ اقبال رحمتہﷲعلیہ نے فرمایا
اب ترا دَور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی رُوحِ فرنگی کو ہوائے زر و سِیم
تحریر: بنت سجاد