فتحِ مکہ ایک عظیم فتح
Article by Syeda Mehwish Attaria
آٹھ ہجری رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان وزمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی فتحِ مکہ مسلمانوں کی عظیم فتح تھی جس نے کفر کی کمر توڑ ڈالی تھی، اس فتح کا پس منظر اور نتائج و اسباب کچھ اس طرح تھے کہ
رسول اللہﷺ کی بعثت و اعلان نبوت فرماتے ہی آپﷺ کو صادق اور امین کہنے والے نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ ساتھ ہی آپﷺ کی جان لینے کے درپے ہوگئے کیونکہ انہیں دین اسلام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں خطرہ میں نظر آنے لگی یہ دنیا پرست لوگ کہا اسلام کو قبول کر سکتے تھے۔
انہیں کیا معلوم کہ اگر آج سرکار دوعالمﷺ کی آواز پر لبیک کہیں گے تو کل قیامت تک صحابی رسولﷺ کے لقب سے جانے جائیں گے اور بروز خشر میٹھی میٹھی نہروں میں حصہ پائیں گے، بہت کیف یہ سعادت ان بدبختوں کے نصیب میں نہیں تھی (جن کے مقدر میں تھا انہوں نے حق کا ساتھ بھی دیا اور رسول اللہﷺ کی آواز پر لبیک بھی کہا) اور سرکار دوعالم ﷺ نے مخالفین کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں، کبھی آپﷺ پر حالت نماز میں اوجھڑی ڈال دی جاتی تو کبھی آپﷺ کو مجنوں اور دیوانہ کہا جاتا، لیکن قربان جاؤں پیارے آقاﷺ نے صبر واستقامت کا دامن نہ چھوڑا، آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر جب ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے اور کفار باز نہ آئے تو رب عزوجل کے حکم سے آپ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت کی ،یہ ہجرت بھی کہاں آسان تھی کفار نے آخری وقت تک آپ ﷺ کو شہید کرنے کی کوششیں کیں مگر ناکام ہوگئے بہر کیف مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کر آئے تاکہ امن و سکون سے اسلام کا پرچار کر سکیں لیکن کفار کو یہ کہاں منظور تھا انہوں نے مدینہ منورہ میں بھی مسلمانوں کو چین کا سانس نہ لینے دیا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ، ان کی انہی کارستانیوں کے سبب بہت سے غزوات اور سرایا وقوع پذیر ہوئے، خیر وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ ہجرت کو چھ سال گزر گئے، مسلمان بیت اللہ کی زیارت کے لئے بے قرار تھے، چناچہ رسول اللہ ﷺ اپنے چودہ سو اصحاب رضوان اللہ علیہم کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے، کفار مکہ نے پھر جفاکاری کرتے ہوئے پرامن مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا، بالآخر طویل مذاکرات ہوئے اور ایک معاہدہ طے پاگیا جس کو صلح حدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ معاہدہ مسلمانوں کے حق میں سخت تھا لیکن اللہ کے کاموں میں کوئی نا کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ آپﷺ نے سب شرائط منظور فرمایا لیں،ان شرائط میں یہ بھی تھا کہ فریقین دس سال تک جنگ نہیں کریں گے،اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ بھی طے پاگیا کے عرب کے باقی قبائل کو کھلا اختیار ہے وہ چاہیں تو مسلمانوں کے ساتھ ہو جائیں یا قریش کے ۔ عرب کے دو قبیلے خزاعہ اور بنو بکر آپس میں دشمن تھے اور ان میں عرصہ دراز سے لڑائیاں جاری تھی صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ ہوگیا اور بنو بکر نامی قبیلے نے قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا۔چونکہ مسلمان تو اپنے عہد میں بہت پکے ہیں اس لئے ان کی طرف سے تو حملے کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن قریش مکہ کہاں باز آنے والے تھے بنو بکر کی ایک شاخ بنو نفاثہ نے موقع پاتے ہی بنو خزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا ۔ یہ واضح طور پر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی جس میں بنو خزاعہ کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعے کی خبر جب سرکارﷺ تک پہنچی تو آپﷺ نے قریش کی طرف پیغام بیجھا کہ تین شرائط میں سے کوئی ایک شرط قبول کر لیں(مدارج النبوت)
خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیں
بنو نفاثہ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں
اعلان کر دیں گے حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا
قطرہ بن عمر نے قریش کا نمائندہ بن کر کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے(شرحِ الزرقانی)
دس رمضان المبارک 8 ہجری کو سرکار دوعالم ﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مکتہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے یہ وہ عظیم دن تھا جس دن اللہ نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا اور کفر کی کمر ٹوٹ گئی یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ کیونکہ سرکارﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اس لیئے آپﷺ نے مکہ میں داخل ہوتے ہی رحمت بھرا فرمان جاری کر دیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے اس کے لیئے معافی ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کرکے اس کے لیئے بھی امان ہے اور جو شخص ابو سفیان کے ہاں پناہ لے لے اس کے لیئے بھی امان ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوگا اس کے لیئے بھی امان ہے(معرفتہ السنن)۔
رحمتہ للعالمینﷺ نے کعبہ معظمہ میں موجود بتوں کو توڑ کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمانے کے بعد کفار قریش سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: بولو! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
کفار مکہ جانتے تھے آپ رحمتہ العالمین ہیں کہنے لگے
آپ کرم والے بھائی اور کرم والے بھائی کے بیٹے ہیں
دریائے رحمت جوش میں تھا سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا
آج کے دن تم پہ کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو
عام معافی کا اعلان سننتے ہی کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگ(بخاری شریف)
اس عام معافی نے کفار کے دلوں پر ایسا اثر کیا کہ وہ آ آ کر خود آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے اور اسلام لانے لگے ، فتح مکہ کے دن دو ہزار افراد ایمان لائے تھے(امتاع الاسماع)
حضرت سہیل بن عمرو جو سرداران قریش میں سے تھے پہلے اس خوف سے گھر میں بند ہوگئے کہ کہیں مجھے قتل نہ کردیا جائے کیونکہ انہوں نے حالت کفر میں اسلام کی بہت زیادہ مخالفت کی تھی ۔ انہوں نے اپنے بیٹے جو مسلمان تھے ان کے ہاتھ سرکارﷺ کی بارگاہ میں امان کا پیغام بیجھا تو آقا ﷺ نے انہیں امان عطا فرما دی اس کے بعد وہ ایمان لے آئے(المغازی الواقدی)
اسی طرح حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد محترم حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سمیت کئی اہم شخصیات نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا ،جن میں سے چند کے نام یہ ہیں
حضرت ابو صحافی، حضرت حکیم ابن حزام، حضرت جبیر ابن معطم، حضرت عبد الرحمن، حضرت عتاب بن اسید، حضرت عتاب بن سلیم اور حضرت عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہم(اسد البلاغہ)
اس مبارک اور عظیم فتح کے صدقے میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اسی جذبے کے ساتھ ہم قبلہ اول، کشمیر، فلسطین، عراق و شام اور تمام مسلمانوں کو جہاد سے آزاد کروا سکیں۔
تحریر: سیدہ مہوش عطاریہ