نفسیاتی جنگ/فتھ جنریشن وار

Article by Aqsa Hassan
ایک بہت بڑی اصطلاح جو ہم کافی عرصہ سے سُنتے آ رہے ہیں۔ جسے فتھ جنریشن وار کے نام سے جاننا جاتا ہے ۔عام لفظوں میں آپ دماغی جنگ یا نفسیاتی جنگ کہہ سکتے ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کے متعلق ایک کہاوت بہت مشہور ہے یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے لڑا ہی نہ جائے۔
ایک ایسی ان دیکھی جنگ جس میں لڑنےوالا سامنے نہیں ہوتا، زیادہ آسان لفظوں میں اِسے یوں لے لیں کہ ہم ان دیکھے دشمن کے پیچھے اپنوں کو ہی لتاڑ رہے ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جیسے کمپیوٹر کے دو اہم پارٹ ہوتے ہیں، ایک سافٹ وئیر دوسرا ہارڈ وئیر اور اس میں اب سافٹ وہ ہدف ہوتا ہے جس کے خلاف سارے مل کر لڑ رہے ہوتے ہیں ایک ان دیکھی جنگ، جس میں دشمن کون ہے واضح نہیں ہوتا اور ہارڈ وہ کمپیوٹر کا حصہ ہے یا کوئی برقی آلہ جس کے پیچھے بیٹھ کر لڑنے والے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا، فلم اور معیشت ہیں۔ یہ لڑائی زمین پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں کے ذریعے لڑی جا رہی ہوتی ہے۔ لوگوں کے جسم کو نہیں بلکہ ان کے ذہن کوشکار کیا جاتا ہے۔ اس میں حریف کسی ملک میں اپنی فوجیں نہیں اتارتے بلکہ اس ملک کے عوام کو ہی اس کے خلاف استعمال کر کے اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟ یہ کیسے لڑی جاتی ہے؟ اس میں حریف کو کیسے زیر کیا جاتا ہے؟ آج ان تمام باتوں کا احاطہ کیا جائے گا اور کون کون لوگ کیسے کیسے شامل ہوتے ہیں وہ بتایا جائے گا ۔
قارئین! یہ بیانیے کی جنگ ہے اس جنگ میں میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ہتھیار ہیں جہاں سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر، بیانیے کی جنگ یا نفسیاتی مات کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ہم کن مراحل سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
تغیر و تبدل کا یہ سلسلہ ازل سے چلا آ رہا ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ ہم اکیسویں صدی کے ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ترقی یافتہ دنیا میں انسان کا اگلا ممکنہ پڑاؤ مریخ ہے، انسان ٢٠٣٠ تک دوسرے سیاروں پر بستیاں آباد کرنے کا سوچ رہا ہے اور سائنسدانوں نے اس کے لئے بھرپور تیاری بھی کر لی ہے۔ یہ زمین جسے ہم نے گلوبل ولیج کا نام دیا ہے، کے موجودہ منظرنامے میں یہ سوچنا محال ہے کہ ایک زمانہ تھا جب انسان اپنی بقا کی جنگ تلواروں اور خنجروں سے لڑا کرتا تھا۔ اس وقت قبائل کے درمیان جنگیں ہاتھ سے بنائے تیر تفنگ، منجنیق اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں اور فتح یا شکست کا انحصار کہیں فوج کے حجم پر بھی ہوتا تھا ۔ اس دور کو فرسٹ جنریشن وار فیئرکا نام دیا جاتا ہے۔ انسان نے کچھ ترقی کر لی تو ہاتھ سے بنائے، ہتھیاروں، اوزاروں، ہاتھی اور گھوڑے کی جگہ بندوق، رائفل، ٹینکوں اور توپوں نے لے لی۔ یہ دور سیکنڈ جنریشن وار فئیر کہلایا۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہم نے مزید ترقی کی منزلیں عبور کیں۔ انڈسٹریل دور میں ترقی کے نئے راستے وا ہوئے۔ ائیر کرافٹ، جیٹ، طیارے اور انواع و اقسام کے میزائل ایجاد ہوئے اس دور میں بری، بحری اور ہوائی افواج کی الگ الگ تخصیص کی جانے لگی ۔ اس دور کو تھرڈ جنریشن وار فئیر کا نام دیا گیا۔ جنگی چالیں، جاسوس اور جاسوسی کے آلات تو تقریبا ہر دور میں استعمال کئے گئے لیکن فورتھ جنریشن وار فئیر میں کچھ نئے طریقے آزمائے گئے اس دور میں عالمی طاقتوں نے سامنے آئے بغیر اپنے مسلح حامیوں کو میدان میں اتار کر اور کبھی دو گروپوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کئے۔ اس فورتھ جنریشن وار فئیر میں قبضہ کرنے کی خواہش مند طاقت تو پس منظر میں رہتی ہے لیکن وہ کثیر سرمایہ لگا کر ایسے گروہ تشکیل دیتی ہے جو مسلح جدوجہد ، بغاوت اور سازشوں کے جال بچھا کر اپنے آقا کے لئے من پسند سر زمین پر قبضہ کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ فورتھ جنریشن وار فئیر اور ففتھ جنریشن وار فئیر کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگوں ، پراکسی وارز، اور کالے سونے (تیل) کے لالچ نے اس دنیا میں آگ لگا دی ہے۔ پہلے طاقت وار گروہ عام انسان کے ذہن کو قابو کرتا ہے پھر اسے دہشت گردی جیسے عناصر میں دھکیل دیتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں جب الیکٹرانک میڈیا نے ترقی کی تو ہمارے ملک میں بھی نجی ٹیلی ویثرن چیینلز کا آغاز ہوا۔ نیوز اور کرنٹ افئیرز کے اس ہنگامہ خیز دور نے ریٹنگ کی ایسی دوڑ لگائی کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز مٹ گئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ جادوئی کھٹولہ جس کے اندر پوری دنیا سمائی ہوئی ہے اتنی جلدی اپنی کشش کھو دے گا۔ ابھی تو چند برس ہی گزرے تھے کہ انسان نے اپنے آپ کو ٹی وی کے سحر سے آزاد کروا کر پوری کائنات کو اپنی انگلیوں کی پوروں کے گرد گھمانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جی ہاں! انٹرنیٹ نے اس سوشل میڈیا کو جنم دیا جس نے معلومات کی پٹاری ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے ہاتھ میں تھما دی اور یہیں سے ففتھ جنریشن وار فئیر میں تیزی آگئی۔ جہاں پہلے پراپیگنڈے کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا تھا اب نظریات کی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہیں۔ یہ اذہان کی جنگ ہے ، چومکھی لڑائی ہے۔ اس میں روایتی جنگ لڑنا ضروری نہیں بلکہ میڈیا کے محاذ پر اذہان کو بدلنے کی ایسی جنگ لڑی جاتی ہے کہ نوجوان نسل کو فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھڑکا کر بغاوت برپا کی جاتی ہے۔ عرب سپرنگ میں سوشل میڈیا کو استعمال کر کے نوجوانوں کو بغاوت پر اُکسا یا گیا۔ ان معاشروں میں موجود معاشرتی اور معاشی نا انصافی سے اکتائی ہوئی عوام کو ورغلانا انتہائی سہل کام ثابت ہوا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے پراپیگنڈے نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن کیمیائی ہتھیاربرآمد نہ ہو سکے۔ صدام حسین سے لے کر قذافی تک کو ان کی قوموں کے سامنے پھانسی پر لٹکایا گیا لیکن جس امن اور معاشی خوشحالی کے وعدے پر یہ سب کیا گیا وہ کبھی پورا نہ ہوا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار آج کی بات ہے لیکن ایساہرگز نہیں۔ اس طریقہ کار کے مختلف حربے ایک مدت سے دشمن کو زیر کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ نازی ہٹلر دور میں ہٹلر پر حملے کے بعد فوج میں اس کی موت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی، جاسوسوں کا استعمال کیا گیا تا کہ قوم پر نفسیاتی اثر ہو اور وہ ہٹلر کے خوف سے باہر نکل کر کسی اور کمانڈر کو حکمران تسلیم کر لیں۔ یہ ففتھ جنریشن وارکا ہی ایک حربہ تھا۔ موجودہ دور اب اسی اعصابی جنگ کا دور ہے۔ لیکن اب میڈیا اور سوشل میڈیا کے بعد اس وار کا دائرہ کار بہت پھیل چکا ہے۔
آج کے سوشل میڈیا کا اہم حصہ، ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام جیسی لاتعداد ایپ ہیں۔ چلتے پھرتے انسان ہر چیز سے آگاہ رہتا ہے۔ فتھ جنریشن وار میں سب سے پہلے نوجوانوں کو جن کے خلاف محاذ پر کھڑا کیا جاتا ہے وہ ہوتے ہیں “ملکی ادارے” عام عوام کے سامنے اس ملک کے اداروں کو پھینک دیا جاتا ہے، مثلاٙٙ آج کل ایسےایسے میمزز بنائے جاتے ہیں کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا انسان سچ اور جھوٹ میں فرق نہیں کر پاتا۔ دشمن دنیا کے کسی دوسرے کونے میں بیٹھا حریف ملک کی جوان نسل کو اس ملک کے قومی و سلامتی و مذہبی اداروں کے خلاف ورغلا رہا ہوتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے اس فتھ جنریشن وار کی زد میں ہمارا ملک پاکستان بھی ہے۔ گزشتہ دو دہاہیوں سے پاکستان کے میڈیا نے بہت ترقی کی ہے ،جس میں صرف پرنٹ میڈیا ہی نہیں بلکہ کئی سرکاری چینلز اور ہزاروں کی تعداد میں نجی چینلیز بھی وجود میں آچکے ہیں جن کی گنتی کرنا مکمن نہیں رہا ۔ ان چینلنز پر ہر دن مختلف اوقات میں ٹاک شوز ہوتے ہیں ۔ ان ٹاک شوز کو ایسا ایسا عروج ملا ہے کہ لوگ ٹاک شوز کو سننے کے لیے اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر دیتے ہیں اور یہ ٹاک شوز جو سچ جھوٹ کا آمیزش تیار کرکے بیان کرتے ہیں عوام ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتی ہے۔ اس طرح اسی بہانے دشمن کو بھی پاکستان کیخلاف اپنا مذموم کھیل کھیلنے کا موقع ملا۔ ان کٹھ پتیلیوں کو پاکستان کے اساس اداروں کے خلاف بولنے کا موقعہ ملتا رہا، صحافت آزاد ہو گئی اور اس قدر آزاد ہوئی کہ ملکی سلامتی پچھے رہ گئی اور ذاتیات، کوریج اور ریٹینگ نے میدان میں قدم جمالیے۔ خصوصاً پاکستان کی فوج کے خلاف ایسی بے سروپا باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہوتا کیوں کہ یہ مادر پدر آزادی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی امریکہ یا بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کی بھلائی کرنے کی آڑ میں لوگوں کو اپنے ہی اداروں کے خلاف بد ظن کر رہا ہوتا ہے نوجوان نسل کو فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کےخلاف بھڑکا کر بغاوت برپا کی جاتی ہے۔
یہ سب کچھ ففتھ جنریشن وار ہی ہے کہ دشمن دور بیٹھا نوجوانوں کو ورغلا رہا ہے لیکن کوئی کچھ کر نہیں پا رہا۔ اب اس ففتھ جنریشن وار میں پاکستان دشمنوں کی زد پر ہے، پاکستان میں اس جنگ کو جواز فراہم کرنے کیلئے آزادی اظہار کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا پر ہماری فوج کے خلاف کیا اول فول نہیں بکا جاتا لیکن اس کے باوجود لوگوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ یوں ہی چھوڑ دیا جائے اس کیلئے پاکستانی میڈیا، صحافیوں اور سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کو ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر اپنی شخصی آزادیوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم ففتھ جنریشن کی آڑ میں دشمن کی ریشہ دوانیوں کوبھی مد نظر رکھیں اور پاکستان کیخلاف کام کرنے والے عناصر کا قلع قمع کریں۔ سُنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کریں اور ہر بات کی تحقیق کریں جس کے لیے ہمیں سب سے پہلے انٹرنیٹ کی باریک بینوں کی جانچ پڑتال کرنا لازمی ہے دشمنوں کی چالوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ماضی میں پیش آئی مثالوں کو زیر مطالعہ لائیں اور سبق حاصل کریں ۔
کسی بھی ملک کا کُل اثاثہ اس کے جوان ہوا کرتے ہیں اور اس دماغی کنڑول جنگ کا مقصد ہی جوان نسل کو تباہ کرنا ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں ہمیں اپنی جوان قیادت کو تیار کرنا ہو گا کہ وہ اس ڈیجیٹل جنگ سے بچ کر کیسے اپنے مذہب اور ملک کے لیے کام کرے۔
انہی جوانوں کے کاندھوں پر ملک کا معاشی انحصار ہوتا ہے اور یہی جوان طاقت اپنی صلاحیتوں سے ملک کا نام ہر شعبے میں روشن کرتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا اور اپنی ذمہ داریوں کوسمجھنا ہو گا کہ کیسے اپنی جوان نسل کو اس ذہنی جنگ سے بچا کر انھیں ملک و ملت کا روشن ستارہ بنانا ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
فی امان اللہ
تحریر: اقصی حسن