Article by Maria Ibadat Awan
کیا نیو ائیر ہمارا تہوار ہے؟
یہ جملہ دسمبر کے آخر میں گونجنا شروع ہو جاتا ہے نیا سال آ رہا ہے اس کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں پارٹیز کا اہتمام کیا جاتا ہے پوری پوری رات رقص و موسیقی کی محافل سجائی جاتی ہیں جس میں نوجوانوں کی کثرت ہوتی ہے۔
یہ ہم کیا کر رہے ہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں کیا انھیں کاموں کیلئے ہم آئے تھے ہم کیوں آخرت کو فراموش کیے بیٹھے ہیں؟
کیا یہ ہمارا تہوار ہے جو ہم اسے اتنے جوش و جذبے سے مناتے ہیں؟
کیا نبی پاکﷺ نے نئے سال کا جشن منایا؟ کیا صحابہ کرام نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں؟ کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اسے منایا گیا؟ کیا باقی مسلمان حکمرانوں کے دور میں انھوں نے کبھی ایسی محافل میں شرکت کی؟
یہ سارے وہ سوال ہیں جن کا ہر صاحب عقل نفی میں جواب دے گا ۔
ہر تہوار کی کوئی حقیقت ہوتی ہے کوئی پس منظر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ تہوار منایا جاتا ہے ۔ اس تہوار کی کیا حقیقت ہے یہ کس سے منسوب ہے؟
نیو ائیر نائٹ کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی میں ”برطانوی نیوی“ کے نوجوانوں کی طرف سے کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل نیوی کے نوجوانوں کی زندگی کا زیادہ حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا، امریکہ نیو یارک، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی سمیت تمام عیسائی ممالک نیو ائیر کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
اب تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ یہ تہوار ہے ہی یہود و نصاری کا تو کیا اب مسلمان ان کے تہوار منائیں گے؟
مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء محرم الحرام کے مہینے سے ہوتی ہے جب کہ یہ تو عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے جب ان کو منانے کا نہیں کہا گیا تو یہود و نصاری کے تہواروں کو کیسے منایا جا سکتا ہے اور وہ بھی ایسے؟
نئے سال کی آمد سے قبل پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے ہر طرف سجاوٹیں کی جاتی ہیں تفریحی پروگرام رکھے جاتے ہیں جس میں رقص کے ساتھ ساتھ شراب و شباب کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے کیونکہ یہود و نصاری کی تسکین انھی دو چیزوں سے ممکن ہے ایک شراب اور دوسرا شباب (عورت)۔
مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہ تو مناتے ہیں کہ ان کا تہوار ہے لیکن ارے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیوں اپنی روایات کو فراموش کر چکے ہو؟
اگر بظاہر دیکھا جائے تو نیے سال کی آمد پر خوشی بے بنیاد ہے کیونکہ در حقیقت ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا ہے ہم اپنی موت کے اور قریب ہو گئے ہیں زندگی الله تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک نعمت هے اور نعمت کے کم ہونے پر افسوس کیا جاتا ہے خوشی نہیں!
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
یہ سارے تہوار مدر ڈے، فادر ڈے، ٹیچر ڈے، ویلنٹائن ڈے، وغیرہ یہود و نصاری کے ہیں کیونکہ وہ حقیقی رشتوں سے کھوکھلے ہیں ان کے ہاں بس ایک دکھاوا ہے اس لیے ایک دن متعین کر کے اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں لیکن ہم مسلمان الحمد لله ہر رشتے سے دوبالا ہیں ہمارا ایک مضبوط خاندانی نظام ہے ہمیں ان دکھاووں کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمیں تو نئے سال کی آمد پر مسرت کا نہیں بلکہ غم ہونا چاہئے کہ ہماری زندگی سے ایک برس اور کم ہو گیا ہے ہم اپنی اخروی زندگی کے ایک برس اور قریب ہو گئے ہیں ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ گذشتہ برس ہم نے کیا پایا ہے اور کیا کھویا ہے کتنے نیک اعمال کیے ہیں کتنے ایام گناہوں کی لذتوں میں گزارے ہیں۔
نیا سال جشن منانے کیلئے نہیں بلکہ خود احتسابی کیلئے ہے۔
آئیے ایک عزم کرتے ہیں ایک عہد کرتے ہیں
نیا سال منائیں گے لیکن پوری رات موسیقی کی تال پر ناچ کر نہیں بلکہ نوافل ادا کر کے رب کے حضور ایک اور زندگی کا برس ملنے پر شکرانے کے طور پر منائیں گے، اپنے پچھلے برس ہونے والی غلطیوں کو آئندہ برس درست کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ جو زندگی گزر گئی اس میں ہوئے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور آئندہ برس نیک اعمال کرنے کا عہد کریں گے
اپنے حقوق کی ادائیگی کریں گے چاہے وہ حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ۔
تحریک لبیک پاکستان ایک نہایت ہی اچھا لائحہ عمل لائی ہے پوری رات جو نوجوان رقص و موسیقی میں گزارتے تھے جو پوری رات نیو ایئر پارٹیز میں مشغول ہوتے تھے جو پوری رات گناہوں میں سپرد کرتے تھے سبحان الله اب وہ پوری رات لبیک یارسول اللہ کی صداؤں میں گزاریں گے
تحریک لبیک پاکستان نیو ایئر نائٹ کو یوم دعا کے طور منائے گی۔
ماشاء اللّٰہ عزوجل،اس نیک کام میں آپ بھی تحریک لبیک پاکستان کا ساتھ دیں اور معاشرے سے اس برائی کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں
خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک
حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ
تحریر: ماریہ عبادت اعوان