اسلام غیرت کا درس دیتا ہے
Article by Abrish Noor
آج باطل قوتیں ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر اسلام کو دہشتگرد قرار دینے پر تلی ہیں ناصرف یہود و نصارٰی بلکہ کچھ منافقین لبرلز سوشل میڈیا پر اسلام کو ٹارگٹ کرتے ہوے شب و روز گزار رہے ہیں، دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانے پر ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے جن میں مرزا جہلمی جیسے دو ٹکے یوٹیوبرز آنے والی نسلوں کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اسلام دشمن عناصر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوچکے ہیں اور ان سب کا ایک ہی مقصد ہے اسلام کو دہشتگردی کا پیغام قرار دے کر مسلمانوں پر ضرب کاری لگائی جائے اور نوجوان مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی محبت کو ختم کر دیا جائے۔
اسلام جارحیت، بے سبب قتل و غارت کا قائل نہیں بلکہ یہ تو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کا درس دیتا ہے،
باوقار زندگی گزارنے کے لیے عملی جدوجہد کرنا اپنے حقوق کے لیے میدان میں اترنا دہشتگری نہیں بلکہ غیرت ایمانی ہے۔
اسلام سے بڑھ کر امن کسے عزیز ہوگا؟
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اج بھی تاریخ لے اوراق پر جگمگارہا ہے کہ
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے
اور حیرت تو اس بات کی ہے جن کے بڑے مظلوموں کو خون میں نہلا دیتے تھے آج وہ مسلمانوں کو امن سکھانے نکلے ہیں۔ دہشتگردی کی تشریح کا فریضہ ان غاصب قوتوں نے سنبھال لیا ہے جو چنگیز اور ہلاکو کے جانشین ہیں۔ آج وہ ہزاروں بچوں، عورتوں، نوجوانوں کو شہید کرنے والے سپر پاور بن گئے اور جن کا خون بہایا جارہا ہے وہ دہشتگرد ہوگئے ہیں، سپر پاور امریکہ جس نے دوہرے معیار بنا رکھے ہیں افغانستان کو خون میں نہلا دیا گیا اس قتل عام کو قیام امن سے تعبیر کیا گیا۔ فلسطینی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے مگر شیطان اصغر اسرائیل، امریکہ کو روکنے والا کوئی نہیں اور امن امن کی رٹ لگانے والے یہاں تماشا دیکھنے میں مصروف رہے۔ مجھے بتائیے پہلی جنگ عظیم اول، دوم میں انسانوں کو بے دردی سے موت کے منہ میں دھکیلنے والے مسلمان تھے؟ مولوی تھے؟ نہیں بلکہ انکے لاڈلے تھے جو آج بھی ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم و زیادتیوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اسلام ہی امن چاہتا ہے اور مسلمانوں سے بڑھ کر امن پسند کوئی ہے نہ ہوگا۔
ادیان عالم میں واحد مذہب اسلام ہی ہے جس کے نفاذ کی بنیاد قیام امن ہے۔
مسلمان اگرچہ “امن و سلامتی” اور” صلح و محبت “کے علمبردار ہیں اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ گھر میں چور گھس آئے تو اپنی حفاظت بھی نہ کریں بلکہ اپنا گھر انہیں سونپ دیں، جسطرح امریکہ برطانیہ یورپی اقوام کو اپنج دینی تعلیمات عزیز ہیں، وطن عزیز ہے بلکل اسی طرح ہمیں بھی اپنی تعلیمات اور وطن سے محبت ہے۔ صدیوں تک مسلمانوں نے حکومتیں قائم کی مگر کوئی یہودی عیسائی اٹھ کر یہ دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ مسلمانوں نے کمزوروں اور بے گناہوں کا قتل عام کیا۔
اسلام پسندوں کو طعنہ دینے والوں کو چاہیے کہ غیر جانب دار ہو کر گہرائی سے اسلام کے نظام امن کا مطالعہ کریں، اقوام عالم میں سوائے مسلم قوم کے کسی نے بھی قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ قیام امن کے دل ربا نعرے کی آڑ میں خون مسلم کی ہولی کھیلی ہے اور آج تک یہ جاری ہے۔ کبھی آزادی رائے کے نام پر دین اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ہمارے قرآن کو دنیا بھر کے سامنے نظر آتش کردیا جاتا ہے اور ستاون اسلامی ممالک ہونے کے باوجود امن امن کرتے نظر آتے ہیں۔ فرانس چین ہندوستان سمیت بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمان عورتوں کے عبایہ حجاب پر سخت پابندی ہے مگر یہاں کسی کو نہ تو ظلم دکھائی دیتا ہے نہ ہی دہشتگردی یہ سب امن اماں کے پیکر، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالیں مگر مسلمان خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہے جس کی اسلام بالکل اجازت نہیں دیتا۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اقلیتوں کو تحفظ اور تمام حقوق فراہم کرتا ہے مگر جب اسلام، قران،
آقا صلی الله عليه والہ وسلم کی ناموس کی ہوگی تو اس میں دوسری رائے ہے ہی نہیں، یہاں پر اسلام امن نہیں غیرت ایمانی کا درس دیتا ہے۔
اور اگر کوئی عزت سے جینا چاہتا ہے تو اسے چاہئیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام کرے اور انکی ناموس پر حملہ کرنے والوں کے لیے نہ تو میٹھی زبان ہے نہ امن ہے صرف غیرت ایمانی ہے۔
یاد رکھیے گا
اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا ظلم وتعدی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور نہ اسلام یہ کہتا کہ
جب بیٹی اغیار اٹھا کر لے جائیں تو امن کا درس دیتے رہیں۔
جب فلسطینی بچے زخموں سے چور، نم آنکھوں سے صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہوں تو انکی مدد کو پہنچنے کی بجائے امن امن کا راگ الاپتے رہیں۔
جب کشمیر میں مائیں بہنیں مدد کے لیے پکار رہے ہوں
تو اب اسلام امن نہی غیرت کا درس دیتا ہے۔
اگر محمد بن قاسم ایک بہن کی پکار پر عرب سے چل کر سندھ پہنچ سکتا ہے تو ہم کشمیریوں کی پکار پر کیوں خاموش ہیں؟
کشمیر کسی کی جاگیر نہی “پاکستان کی شہ رگ ہے “
کشمیریوں کے لیے اواز اٹھانا دہشت گردی نہیں بلکہ غیرت ایمانی ہے خدارا اٹھیے دین کے نام پر، جہاد کے نام پر اپنے مسلمانوں کی مدد کو پہنچیں! بیت المقدس جل رہا ہے، بوسینیا چیخ رہا ہے، کشمیر پکار رہا ہے، عالمی اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کچھ نام نہاد مسلمان منافقین امن کا درس دے رہے ہیں۔
افسوس تیری مسلمانی پر اثج یورپی استعمار ایک بار پھر صلیبی جنگ کا طبل بجا چکا ہے مگر ہماری صفوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں، کوئی نور الدین زنگی نہیں، کوئی محمد بن قاسم بننے کو تیار نہیں، مسلمان اپنے ماضی سے رشتہ توڑ بیٹھے ہیں، ہم اپنی تاریخ کو بھول بیٹھے ہیں جب اپنے اسلاف کی تاریخ کو یاد رکھا تو چنگیز خان سے صلیبی جنگوں تک فاتح رہے مگر جب قائد انسانیت حضور صلی الله عليه والہ وسلم کے جانثاروں کے کارناموں سے منہ موڑ کر غلامی کو لبیک کہا تو شکست کھائی۔
جب اپنے اسلاف کی سنت ادا کرتے ہوئے میدان میں اترے تو تمام باطل قوتوں کو روند کر رکھ دیا آج اسی غیرت کی ضرورت ہے۔
پھر نا تو قرآن کو کوئی نذر آتش کر سکے گا نا کسی مظلوم کا خون بہے گا۔ بس بہت لگا لئیے جذباتی نعرے، بہت کر لی امن امن کی تقریریں، بہت لکھ لیا اسلام امن کا درس دیتا ہے اب کر کے بتانا ہے اسلام کیسے غیرت کا درس دیتا ہے!
تحریریں کتنی ہی پرشکوہ کیوں نا ہو جب تک وہ عمل کی تاثیر سے محروم ہیں تو وقت کے گنبد بے در میں گم ہوجاتی ہیں۔ آج وقت ہم سے تقریر نہیں، تحریر نہیں بلکہ عمل کا تقاضا کررہا ہے۔
مسلمان یا تو غازی ہوتا ہے یا شہید، درمیان میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہیں آج ضرورت ہے اسی جذبہ جہاد کو بیدار کیا جائے۔
اج تمام اسلام کے نام لیواؤں کو ایک ہوجانا چائیے، اسلام امن سلامتی کا مذہب ہے، دہشتگردی کا تو دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
چھوڑ دیجیے روٹی کپڑا مکان اب بس دین اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، آج سعد رضوی صاحب حق کا پرچم اٹھا کر چلے ہیں، شوکت اسلام کا تصور زندہ کرنے کے لیے میدان میں اترے ہیں، یہی وہ نوجوان ہے جن میں طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ ہے۔ خدارا اسلام کے مرکز امن و سلامتی پر جمع ہوجائیے جرم ضعیفی سے خود کو بچائیے ورنا علامہ اقبال اپنے الفاظ میں فیصلہ سنا چکے ہیں
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تحریر:ابرش نور
Great ، Abrish Noor’s article 💯💖