عالم دین کی فضیلت

Article By Fakhar Zaman Rizvi
اس دنیا میں ہر انسان کا اپنا ایک نام اور اپنا ایک مقام ہوتا ہے اور ہر انسان کا مقام اس کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے میں اس کا مرتبہ کیا ہے اور لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
تو آج کے اس مختصر آرٹیکل میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اسی معاشرے میں موجود ایک عالم دین کی فضیلت قرآن وسنت کے مطابق کیا ہے اور ہمارے معاشرے میں موجود کچھ لبرل ازم ذہن اور سوچ کے مالک اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
کچھ سیکولر ازم مائنڈ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ عالم دین تو معاشرے میں ایک حقیر ترین انسان ہے، ان کو کیا پتہ کہ دین کیا چیز ہے یہ تو بس اپنا نام اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے دین کا نام استعمال کرتے ہیں، اصل دین کا تو ہمیں پتہ ہے دین تو بہت آسان سی چیز کا نام ہے، یہ مولویوں نے دین کو مشکل بنا دیا ہے اور طرح طرح کی باتیں علماء حق کے خلاف کی جاتی ہیں کہ یہ شر پسند ہیں، یہ فرقہ پرست ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ ایک صحیح العقیدہ عالم دین کا مقام ومرتبہ کیا ہے۔
اللّٰہﷻ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
“محبوب فرما دیجئے کہ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے”
عالم دین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو ستاروں پر فضیلت حاصل ہے۔ علماء حق کے بارے زبان درازی کرنے والے کو کون سمجھائے کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ علماء حق انبیاء کرام کے وارث ہیں، عالم دین جس سیاہی سے حدیث تفسیر یا تحریر لکھتا ہے اس سیاہی کا مقام شہید کے خون سے زیادہ ہے۔ عالم دین اس اعلیٰ شخصیت کا نام ہے کہ جس کے لیے سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔ عالم دین کی صحبت میں بیٹھنا اور اس کی زیارت کرنا بھی ثواب ہے۔ نادان کیا سمجھیں کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ میری آل میری پشت میں سے ہے اور علماء حق میرے سینے میں سے ہیں۔ عالم دین کی یہ شان ہے کہ اس کا سانس لینا بھی اور یہاں تک کہ عالم دین کا سونا بھی عبادت ہے۔ ایک اور جگہ بیان کرتے ہوئے رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عالم دین کو عابد یعنی عبادت گزار پر اس طرح فضلیت حاصل ہے جس طرح مجھے ایک عام آدمی پر فضیلت حاصل ہے۔
اللّٰہ اکبر کبیرا
صاحبِ بصیرت اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ شریعت اسلامیہ میں عالم دین کو عبادت گزار پر بہت فوقیت حاصل ہے۔ بروز محشر اللّٰہﷻ عبادت گزار کو جنت میں داخلے کا حکم دے گا اور عالم دین کو روکنے کا حکم دے گا کیونکہ اللّٰہﷻ عالم دین کے کہنے پر گنہگاروں کو معاف فرما کر جنت عطا فرمائے گا اور جب مخلوق جنت میں داخل ہو جائے گی تو اللہﷻ جب جنتیوں کو اپنا دیدار کروائے گا تو مالکﷻ جنتیوں سے کہے گا کہ مانگو کیا مانگنا ہے جو مانگو گے عطا کیا جائے گا اس وقت جنتی یہ کہیں گے کہ ہر نعمت تو موجود ہے اب کیا مانگنا چاہیے، تو حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اس وقت پھر جنتی علماء کے پاس جائیں گے کہ آپ صاحب علم ہو آپ بتاؤ کہ اب رب سے کیا مانگنا چاہیے، تو پھر علما بتائیں گے۔ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جنت میں جانے کے بعد بھی لوگ علماء کے محتاج ہوں گے۔
مختصر یہ کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر ایک طالب علم جو گھر سے علم دین حاصل کرنے کی نیت سے نکلے اس نیت سے کہ وہ علم دین حاصل کر کے اسلام کی سربلندی کے لیے دین اسلام کا پیغام عام کرے گا لیکن وہ علم حاصل نہ کر سکے ابھی راستے میں ہی ہو یا کچھ علم ہی حاصل کیا ہو اور اسے موت آ جائے تو حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت میں اس کے اور انبیاء کرام کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔ اللّٰہ اللّٰہ اب ہمیں اس بات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ایک طالب علم کی یہ شان ہے تو عالم دین کا مقام و مرتبہ کیا ہو گا۔
اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہم اس معاشرے کی عظیم ترین اور بابرکت شخصیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جس بندے کو تین کلمے بھی صحیح سے پڑھنے نہیں آتے، وہ بھی حقے پر بیٹھ کر علماء حق کے خلاف زبان درازی کر رہا ہوتا ہے جو کہ ایک کھلی گمراہی اور گناہ ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ بندہ جس کو اس کے باپ نے پالا، پرورش کی، پڑھایا، کاروبار بنا کر دیا، اسی باپ کا جب مرگ وصال کا ٹائم آتا ہے تو وہی بیٹا جو علماء حق کے بارے میں زہر اگلتا ہے اسے اتنا نہیں پتہ ہوتا کہ باپ کو غسل کیسے دینا ہے، باپ کی نماز جنازہ کیسے پڑھانی ہے اور باتیں عالم دین کے خلاف، میرا سوال ہے معاشرے میں موجود علماء مخالف قوتوں سے کہ بچہ پیدا ہو تو اذان کے لیے علماء، اس کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے علماء، اس کا نکاح پڑھانے کے لیے علماء، اور بھی ایسے کئی کام جو زندگی کا خاص حصہ ہیں جن میں ہم علماء کے محتاج ہی نہیں بلکہ ان کے بغیر ادھورے ہیں تو ہم کس منہ سے ایسے برگزیدہ لوگوں کے بارے کچھ ایسا سوچ بھی سکتے ہیں جس کی ہمیں اسلام اجازت ہی نہیں دیتا۔
میرے معاشرے کے ممی ڈیڈی لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ عالم دین ایک بہت بڑی نعمت کا نام ہے ہمیں ان کی قدر کرنا ہو گی۔ عالم دین ہمارا سرمایہ ہیں اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی، کسی ذاتی یا سیاسی مفاد کی خاطر علماء حق کے بارے میں نازیبا الفاظ اور سوچ استعمال کر کے خود کو گناہوں کا مرتکب نہ ٹھہرائیں، محراب و منبر کے ان وارثوں کی عظمت و شان اور فضیلت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آخر میں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ علماء حق کو ہلکا نہ سمجھیں بلکہ ان کی قدر کریں اور ان کی صحبت اختیار کر کے زندگی کو خوشگوار بنائیں اور یاد رکھیں کہ علماء حق کی خدمت کرنا اور ان کے ساتھ محبت کرنا امت کے لیے ضروری ہے۔
تحریر: فخر زمان رضوی
ماشا اللّه بہت خوب بھائی زبردست تحریر ہے اللّه پاک آپکو سلامت رکھے اور دین پر استقامت عطاء فرمائے آمین
رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ میری آل میری پشت میں سے ہے اور علماء حق میرے سینے میں سے ہیں۔
برائےکرم اس حدیث پاک کا حوالہ ارسال فرما دیں