اتحادِ مسلم، سیاسی و مذہبی لیڈرشپ
Article by Haifz Abdul Karim
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اتحاد کا بنیادی مطلب ہے کہ ہم آپس میں متحد اور اکٹھے ہو کر رہیں اس کے علاؤہ ہم آپس میں اپنے دکھ درد اور تکالیف کو سمجھیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں یوں تو اتحاد ایک چھوٹا سے لفظ ہے مگر اس کا وجود اتنا بڑا ہےکہ اس کے اندر معنی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے
انفرادی قوت، فکری قوت، معاشرتی قوت، اقتصادی قوت، ایمانی قوت اور سائنسی قوت
اتحاد یا اتفاق قوت اور طاقت کا ذریعہ ہے اور نا اتفاق، انتشار کمزوری اور زوال کا خیمہ ہے
قوموں کی تعمیر و ترقی، خوشحالی اور استحکام کا دارومدار اتحاد پر ہے اگر ہماری قوم متحد ہو تو کوئی بھی دشمن ہمیں مغلوب نہیں کر سکتا
قرآن مجید نے ہم مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر بہت زور دیا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وٙعْتٙصِموْبِحٙبْلِ اللهِ جٙمِيْعاًوّٙلاٙتٙفٙرّٙقٌوْ
ترجمہ:اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (ہدایت کی رسی) کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو.
اور پھر ارشاد ہوتا ہے کہ
وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
ترجمہ: اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہوکر ) بزدل ہو جاؤگے
ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھیں اور آپس کے اختلافات کو بھلا کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں کیونکہ کسی بھی ملک کی بقا کا انحصار قومی یک جہتی اور اتفاق پر ہے
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قومی اتحاد کی نعمت اور برکت سے نوازے اور عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو تا قیامت تمام کفار پر غالب رکھے
مذھبی لیڈرشپ: دیکھا جائے تو یہاں معاملہ بہت نازک ہے ہم سب کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ان مذھبی جماعت سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے بارے میں کسی بھی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال نہ کریں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مملکتِ پاکستان میں مسلمانوں میں اتحاد رہے تو ہمیں سب سے پہلے یہ طریقہ استعمال کرنا ہوگا، ماضی میں بھی کفار نے ہمیں اسی مذھبی لیڈرشپ کے جال میں پھسا کر ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کیا تھا اور وہ آج بھی کر رہا ہے کفار کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ ہمیں فرقوں میں تقسیم کرکے رکھے ہمیں ہمارے اصل مقصد سے ہٹا کہ ہمیں اپنے ہی بھائیوں سے لڑانے میں جٹا ہوا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ آپسی اختلافات ختم کرکے ایک جماعت کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک ہی جدوجہد کریں جیسے ماضی میں ہمارے آباؤ اجداد نے کی تھی۔
سیاسی لیڈرشپ: کیونکہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اس لیے جمہوریت میں ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی لیڈر پر اخلاق کے دائرے میں تنقید کر سکتا ہے اور سب سے اہم چیز ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ہر چیز کے لیے تیار رکھیں، اگر کوئی سیاسی لیڈر ہمارے لیڈر سے اختلاف کرتا ہے تو وہ کر سکتا ہے یہ سیاست ہے اور یہی دستور ہے اکثر ہمارے بھائی مخالف پارٹی والوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ صحیح طریقہ نہیں ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کو مخالف جماعت والے عزت دیں تو اس کی شروعات ہمیں کرنی پڑیگی اور اگر کوئی عام آدمی ہمارے لیڈر کے بارے میں غلط سوچ رکھتا ہے تو بجائے اسے لڑنے کے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی غلط فہمی دور کریں نا کہ اس کو دور کریں۔
ہم تحریک لبیک پاکستان والے آج عہد کرتے ہیں کہ حقائق سے لوگوں کو قائل کریں گے نا کہ سخت زبان سے
ان شاءاللہ عزوجل
تحریر: حافظ عبدلکریم