جشن آزادی

Article by Bint-e-Sajjad
یومِ آزادی پاکستان 14 اگست 1947 وہ روزِ روشن جب مسلمانان برصغیر قائد اعظم کی قیادت میں لڑا جانے والا مقدمہ جیت گئے۔ ایک انتہائی کٹھن اور طویل ترین جہد کے بعد بلاخر انہیں اپنا الگ وطن مل گیا۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد دیار غیر سے اپنے گھر تک لوٹنے کا سفر ہرگز خوشگوار نا تھا۔ آئیے ذرا نقشہ کھینچتے ہیں تاریخ کے قرطاس پر دل دہلا دینے والی ایل کربناک داستان کا۔
آزادی کا اعلان ہوتے ہی جہاں ایک طرف مسلمانان برصغیر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تو دوسری طرف اس خطہ کی فضاء جیسے خون آلود ہوگئی۔ ہند سے بے سرو سامانی کی حالت میں اپنے پاک وطن کی طرف ہجرت کرتے مسلمانوں کو ہر قدم پر گروہ در گروہ قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔ انتہائی بے حسی اور سفاکیت کے ساتھ ماؤں کی گود میں چھوٹے بچوں کو کاٹ دیا گیا، گھروں کے گھر اجڑ گئے، دریاؤں میں پانی کی جگہ خون بہنے لگا۔ کہیں نہروں میں تیرتی لاشیں عصمتوں کے تحفظ کی گواہی دینے لگیں تو کہیں ہزاروں زندہ لاشیں سکھوں کے گھروں کی اونچی دیواروں میں چُن دی گئیں۔ ہر طرف ایک ہُو کا عالم تھا ، کسی کو کسی کی خبر نا تھی بس ہر کوئی اسی کوشش میں تھا کہ وہ کسی طرح بمعہ اپنے اہل و عیال با حفاظت اپنے وطن پہنچ جائے۔ اور یوں چھپتے چھپاتے، بھوکے پیسے مہاجرین وطن اپنے پیارے اور مال جائیداد قربان کر کے لوٹی پھوٹی حالت میں پاک دھرتی تک پہنچے۔
آخر کیا مقصد تھا 1857ء سے 1947ء تک عظیم قربانیاں پیش کرنے کا۔ کین چاہیے تھا مسلمانان برصغیر کو الگ وطن۔ اسکا جواب تھا وہ نعرہ جسکی بناء پر پاک سرزمین کی بنیاد رکھی گئی کہ
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ
اور
دستور ریاست کیا ہوگا: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
جی ہاں! پاکستان دنیا کے نقشے پر پہلی بار مذہب کے نام اور ابھرنے والی ایک اسلامی ریاست ہے۔ حصول وطن کے بعد قائداعظم نے فرمایا
“پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون ہوں یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال سے مسلمانوں کے طرز حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔”
آزادی ہمارے اسلاف و اکابرین کی لا زوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ یوم آزادی ہر بار ایک نئے عزم و اسقلال اور تعمیر نو کا مطالبہ کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سبز ہلالی پرچم تلے ہم انسانوں کی بھیڑ نہیں بلکہ ایک الگ شناخت کے ساتھ ، ایک مضبوط نظریہ کی حامی اور عظیم روایت و اقدار کی وارث ایک قوم ہیں۔
ہونا تو یہ چاہے کہ یوم آزادی کو یوم احتساب کر طور پر منایا جائے کہ آخر کیوں؟
اسلام کے نا پر حاصل کیے گئے وطن میں آج تک اسلامی شریعہ کا عملاً نفاذ ممکن نا ہو سکا۔ جبکہ اسکے برعکس عوام کے ترجمان پارلیمانی و قومی اسسمبلیاں ٹرانسجینڈر جیسے اسلام مخالف بل پاس کرتے ہیں۔ مذہبی نعرہ لگا کر حاصل کیے گئے وطن میں سیکولر اور لبرلزم کے نعرے کس طرح بلند ہونے لگے۔
کیا وجہ تھی کہ 1953ء سے لے کر 1974ء تک ایک مذہبی قانون کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے پھر سے ہزاروں قربانیاں دینی پڑیں اور آج بھی اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں دین کی بات کرنے اور اسے ایوانوں تک پہنچانے میں رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیوں سال 1971ء میں کمال سفاکیت اور بے حسی سے ارضِ پاک کو انا کی ضد اور اقتدار کی لالچ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
76 برس گزرنے کے بعد بھی میرے ملک کا نظام درست نہیں ہو سکا۔ آج بھی وہی انگریز کا بچھایا ریلوے جال، وہی انگریز کے بناۓ گئے ہسپتال، کالج یونیورسٹیاں ہی نامور اور معیاری سمجھتے جاتے، ایٹمی قوت ہونے کے با وجود آدھا پاکستان بجلی اور صاف پانی جیسیبنیادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
صحراؤں میں کیا انسان کیا حیوان بھوک پیاس سے مر رہے اور دوسری طرف سیلاب میں ڈوبے متاثرین کی شنوائی نہیں ہو سکی۔ چند ایک مذہبی اور سماجی تنظیمات اپنی مدد آپ کے تحت امداد کر رہے لیکن جنہیں واقِعَتاً کام کرنا چاہیے وہ کفن چور مُردار پر پلنے والے گِدھ فوٹوگرافی کرامداد لوٹنے میں مصروف ہیں۔
طاقت کے نشے میں بد مست مقتدر حلقے جنہیں ذاتی غرض و اقتدار کی سیاست سے فرصت نہیں
قانون ایوان عدلیہ سے لے کر مظلوم کے دروازے تک آنکھوں پر ساہ پٹی بنآدھے سو رہا ہے۔
میڈیا جسکے سامنے مظلوم۔کی آہ ریٹنگ اور شہرت کے شور میں دَب کر رہ جاتی ہے
غریب کے شب و روز تو گھر کے راشن، بچوں کی فیس، بیمار کی دو اور بجلی کے بلوں اور ٹیکسز جمع تفریق کرنے میں گزر جاتے۔ بد عنوانی نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ آٹا و چینی سے لے کر لینڈ مافیہ تک ہر طرف جگل راج قائم ہے۔
مادی ترقی کی بات کی جائے تو پاکستان ورلڈ پروسپیریٹی انڈیکس میں 167 میں سے 136 ویں نمبر پر جبکہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 191 میں سے 161ویں نمبر ہے۔ جبکہ رواں سال جولائی کے مہینے تک مہنگائی کی شرح %39.4 ریکارڈ کی گئی جو جنوبی ایشیا ممالک میں سب سے زیادہ شرح مہنگائی ہے۔ اب سے پہلے دہشتگردی اور خود کش حملوں سے مرنے والی قوم کو آج بھوک سے بھی مارا جا رہا ہے۔
افسوس وطن عزیز کے باسی آج لا قانونیت ، معاشی و سیاسی عدم استحکام اور اخلاقی زوال کے بد نما رنگوں میں ڈوبی ایک قوم نہیں بلکہ ماتم کناں انسانوں کی بھیڑ دکھائی دیتے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے آواز تک بلند نہیں کرتے۔
دُور تک اندھیرے ہیں یاس کے بسیرے ہیں
گھات میں لُٹیرے ہیں غاصبوں کے ڈیرے ہیں
کیسی رات چھا گئی صُبحِ آفرین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
اہلِ زَرکا راج ہے جبر تخت و تاج ہے
ظُلم کا سماج ہے روگ لا علاج ہے
خوف ہے ہراس ہے تشنگی ہے پیاس ہے
چھت ہے نہ لباس ہے چُور چُور آس ہے
ہائے لُٹ گیا یقین مرکزِ یقین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
سامراجوں کی جنگ پُورا مُلک خُون رنگ
عقل رہ گئی ہے دنگ حُکمران کی اُمنگ
گِر پڑی ہو جیسے چھت زیرِ چھت مکین پر
المیہ ہی المیہ پاک سر زمین پر
بھلا جس قوم کے لوگ دن بھر آٹے ، راشن کی لائنوں میں خور ہو رہے، حکومت کبھی یورپ یو کبھی چین اور آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلاتی ہو وہاں کیا حکومتی وزیروں مشیروں کو نت نئی گاڑیاں مفت سرکاری کھاتے سے بجلی پیٹرول جیسی آسائشیں زیب دیتی ہیں بھلا۔ ایسے میں حکمران یوم آزادی کے موقع پر عوامی ایجنڈے کی بجاۓ 40 کروڑ لاگت کے جھنڈے تیار کرنے کی سوچ رہے۔
اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ شکوہ بھی اشرافیہ و امرء کی اولادوں کو رہتا جو بیرون ملک بیٹھ کر شکے کرتےاس ملک میں آخر رکھا ہی کیا ہے، ملک نے ہمیں کیا دیا۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ 76 سالوں میں تمہارے اجداد نے اس ملک کو کیا دیا۔ جبکہ اسی ملک نے انھیں گھر دیا تعلیم کاروبار اور زندگی بنانے کے مواقع دئیے، اسی ملک نے تمہیں آزادی دی نام و پہچان دی ورنہ برصغیر میں تمہاری حثیت غلام اقلیت کے سوا کچھ نا تھی۔ لیکن افسوس جس حالت میں مہاجرین وطن نے اس پاک سرزمین کی طرف ہجرت کی آج میرا ملک اسے زیادہ ابتر حالات میں ہے۔
یومِ آزادی پرجہاں ایک طرف پورا ملک سر سبز جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے اور چار سو قومی ترانوں اور ملی نغموں کی گونج جزبہ حب الوطنی کو پھر سے نئی ترو تازگی بخشتی ہے تو دوسری طرف کچھ قابل افسوس اور توجہ طلب رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دن بھر کئی منچلے نوجوان اپنی ہی عزت و غیرت کا تماشا بنانے سڑکوں اور تفریحی مقامات کا رخ کرتےہیں، ون ویلنگ، ہلڑ بازی، گلی کوچوں میں لاؤڈ میوزک اور باجے کا شور، گویا ہر طرف عجب طوفان بد تمیزی برپا ہو جاتا ہے۔
نجی و سرکاری ٹی وی چینلز پر جشن آزادی کے پروگرامز میں حکمران اور ذمہ داران بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ پروگرامز جشن آزادی کم اور مخلوط رقص و سرور کی محفل زیادہ معلوم ہوتے ہیں جہاں ہمارے حکمران خوشی خوشی اپنی اقدار و روایات کے منافی سٹیج پر رقص کرتی قوم کے بیٹیوں کو تالیاں بجا کر داد دے رہے ہوتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ حب الوطنی کے اظہار کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ دل دل پاکستان اور دیگر ملی نغموں پر رقص کیا جائے۔
حالانکہ یومِ آزادی بہترین موقع ہوتا ہے جب ملک کے حکمران اقتصادی شعبہ جات کے ساتھ انسانی ترقی کے شعبہ جات میں بھی نئے منصبوں کا اعلان کریں جس سے بالخصوص غریب طبقہ کا بوجھ کم ہو، لیکن ہمارے حکمران وہی ازلی طریقہ اپناتے ہوئے ہر سال یوم آزادی پر اقتصادی مضمون پر رٹی رٹائی تقاریر اور عوام سے کبھی وفا نہ ہونے والے عہد و پیمان باندھ کر یہ جا وہ جا۔
آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اسکی قدر وقیمت کشمیر اور فلسطین جیسی ریاستوں سے پوچھی جائے کہ جہاں سکون سے جینا تو درکنار شکوہ کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ وہی قومیں آگے بڑھتی اور ہمیشہ زندہ رہتی ہیں جو اپنا ماضی نہیں بھولتیں آزادی کی قدر جانتی ہیں ، اپنے اسلاف اور اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ۔ آزادی کا جشن اور خوشی ضرور منایئں لیکن اپنی اسلامی و اخلاقی اقدار و روایات کو ملحوظ خاطر بھی رکھیں۔ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے اس روز شکرانے کے نوافل اور اجتماعی دعاؤں کی محافل کا اہتمام کیا جائے ۔ شہیدوں اور تحریک آزادی کے تمام مجاہدین اور لیڈران کے ایصالِ ثواب کے لئے اہتمام کیا جائے۔ ٹی وی پروگرمز میں تحریک آزادی کی ڈاکومینٹریز، تقاریر مشاعرے اور دیگر صحت مند تعلیمی پروگرام دکھاۓ جایئں۔ نوجوان نسلوں کے سامنے بالخصوص ہمارے اسلاف کی عظیم الشان جدوجہد اور قربانیوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ وہ حصول وطن کے حقیقی مقاصد سے آگاہی حاصل کر سکیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وطنِ عزیز کو ایک ایسے مخلص قائد کی ضرورت ہے جو اپنی بصیرت اور مدبرانہ صلاحیتوں سے عوام کے اس بے ہنگم اور منتشر ہجوم کو پھر سے ایک قوم بنا سکے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افراد کے ہاتھوں میں ہی اقوام کی تقدیر ہوتی ہے اکیلا قائد کچھ نہیں کر سکے گا جب تک کہ قوم خود ظلم و ناانصافی کے خلاف اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرتی۔ نظریہ اسلام نظریہ پاکستان کی اساس ہے اور نظریہ پاکستان کا تحفظ ہم سبکا کا دینی و ملی فریضہ ہے جسکے لئے ہمیں لسانی مذہبی اور نظریاتی فرقہ بندی سے آگے ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا ۔۔
یہ وطن تیری میری نسل کی جاگیر نہیں
سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے
کتنے ذہنوں کا لہو کتنی نگاہوں کا عرق
کتنے چہروں کی حیا کتنی جبینوں کی شَفق
خاک کی نذر ہوئی تب یہ نظارے بِکھرے
پتھروں سے یہ تراشے ہوئے اصنام جواں
تیرا غم کچھ بھی سہی میرا الم کچھ بھی سہی
اہل ثروت کی سیاست کا ستم کچھ بھی سہی
کل کی نسلیں بھی کوئی چیز ہیں ہم کچھ بھی سہی
ان کا ورثہ ہوں کھنڈر یہ ستم ایجاد نہ کر
میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق
فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے
فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق
اہل منصب ہیں غلط کار تو ان کے منصب
تیری تائید سے ڈھالے گئے تو مجرم ہے
رنگ ماحول بدلنے کی ضرورت بھی درست
کون کہتا ہے کہ حالات پہ تنقید نہ کر
حکمرانوں کے غلط دعووں کی تردید نہ کر
تجھ کو اظہار خیالات کا حق حاصل ہے
اپنا حق مانگ مگر ان کے تعاون سے نہ مانگ
جو ترے حق کا تصور ہی فنا کر ڈالیں
ہاتھ اٹھا اپنے مگر ان کے جلو میں نہ اٹھا
جو ترے ہاتھ ترے تن سے جدا کر ڈالیں
تحریر: بنتِ سجاد





