مغربی میڈیا اور امت مسلمہ
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
گذشتہ کئی عشروں سے عالم اسلام پر الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ہے۔ ٹی وی چینلز کے سیلاب کے ذریعے معاشرتی و اخلاقی اقدار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ اخبارات و رسائل میں بھی روز افزوں تباہی کا عمل جاری رہا لیکن ٹی وی چینلز نے اسلامی ثقافت پر گہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مغرب کا ہدف کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے “لے موند ڈپلومیٹ” میں شائع شدہ مضمون سے ہوسکتا ہے جس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے
”اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں ہوگی بلکہ ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی معرکہ آرائی ہو گی۔“
اور اسی حوالے سے کچھ اور بھی ساتھ بتاتا چلوں حالانکہ یہ شخصیت یورپین نہیں ہے لیکن ان کے مسلمانوں کے خلاف ایجنڈہ کس سے کم نہیں
اس لیے انڈین پولٹیشن سونیا گاندھی نے کہا
”ہم نے پاکستان کو ہتھیاروں کے ساتھ نہیں بلکہ تہذیب کے ساتھ فتح کر لیا “
وہ تہذیب کیاہے؟ وہ تہذیب یہی انڈین ڈرامے اور بیہودہ موویز ہیں۔
امریکی فلمی مرکز “ہالی وڈ” اسلام مخالف سازشوں کا مرکز گردانا جاتا ہے۔ ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و کدورت، بغض و کینہ پوری دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے، بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں ہالی وڈ نے مسلم دشمنی پرمبنی فلمیں ’ڈیلٹافورس‘ ، ’انتقام‘، ’آسمان کی چوری‘ بنائیں، جب کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹرکا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے ۱۹۹۲ء میں”حقیقی جھوٹ‘ ‘اور ”حصار‘ ‘و غیرہ نامی فلمیں تیار کی گئیں۔ ان فلموں میں اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو امن دشمن اور دہشت گرد بنا کرپیش کیا گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور مغربی ممالک نے اسلحہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکا عالم اسلام کے وسائل، معدنیات اور تیل پر قبضے کا خواہاں ہے۔ افغانستان اورعراق پر قبضہ اور نائن الیون کا خودساختہ ڈراما اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عالم اسلام پر امریکی جارحیت اور مغربی میڈیا کا بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا چاروں اطراف سے امتِ مسلمہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مغرب نے دنیا بھر کی معیشت اور میڈیا پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔ کئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات مغرب کے زیرِ اثر ہیں۔
اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم مغربی میڈیا کا مستقل موضوع ہے۔ کبھی مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈ میں قرآن اور اسلامی شعائر کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں اور کبھی فرانس میں صدارتی طور پر گستاخی کی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو”دہشت گرد“، ”جہادی‘ ‘اور ”بنیادپرست“ ثابت کرنے کے لیے اپنی مہم چلائے رکھتا ہے۔ مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے جذبات کو جانچنے کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایشوز اٹھاتا رہتا ہے۔ اسلامی شعائر کی توہین کی جاتی ہے، تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ہی ردِعمل سامنے آتا ہے لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا۔
اب اس حوالے سے جب کوئی مسلمان اپنے ایمانی جذبات میں آ کر وہ توہین برداشت نہیں کرسکتا اور اس ملعون کو واصل جہنم کر دیتا ہے تو پھر پورا یورپ اسلام کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ تو دہشت گرد ہیں، یہ تو آزادی اظہار رائے کو نہیں مانتے۔
میرا ایک سوال ہے یہ کونسی آزادی اظہار رائے ہے جس میں کسی مقدس ہستی کی توہین کر کے کروڑوں مسلمانوں کے دل کو چھلنی کیا جاتا ہے اور پھر اس توہین کے تناظر میں مسلمانوں کی طرف سے جواب آئے تو پھر یہ دہشت گرد، اور انتہا پسند بن جاتے ہیں۔ یہ کون سا دوغلا پن ہے؟ ہمارا دل اس وقت بھی زیادہ دکھتا ہے جب مسلم میڈیا یہ کہتا ہے کہ اسلام تو امن کا درس دیتا ہے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، چلو جب اسلام امن درس دیتا ہے تو یہ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب ہولوکاسٹ پر فلمیں اور ڈرامے بن رہے ہوتے ہیں۔
مسلم حکومتوں اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ مغربی میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ اس اہم مسئلے سے پہلو تہی برتی جا رہی ہے۔ آج میڈیا کے محاذ پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم تنظیموں اور اسلامی تحریکوں کو میڈیا کے میدان میں سرگرم عمل ہونا چاہیے اور اپنے اپنے دائرے میں ایسے افراد تیار کرنے چاہئیں جو میڈیا ٹیکنالوجی کو سمجھ سکیں اور تعمیری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی روایات، ثقافت اورنظریاتی اساس کے پیش نظر اپنی میڈیا پالیسی ترتیب دیں۔حالات حاضرہ کے پروگرام ”ٹاک شو“ قومی و نظریاتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو مغرب کی اندھی تقلید اورنقالی نہیں کرنی چاہیے۔ ٹی وی ڈراموں میں اسلامی تاریخ و ثقافت کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اگر احساس زندہ ہو تو آج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کو مسلم ممالک میں فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تعمیری، اصلاحی، تاریخی اورمعلوماتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی فلمیں جو اصلاح و تطہیر کا فریضہ سرانجام دیں اور جن کے ذریعے اسلامی معاشرے میں تعلیم وتربیت کا عمل بڑھ سکے، ان کو مسلم ممالک میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔
مسلم ممالک میں تنظیموں اور اداروں کو”میڈیا تھنک ٹینک‘ ‘کا قیام عمل میں لانا چاہئیے، ایسے ”میڈیا تھنک ٹینک‘ ‘جو مغرب سے مکالمہ کر سکیں۔ امریکا اور یورپ کے “میڈیا تھنک ٹینک” اسلام مخالف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ میڈیا تھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکتا ہے اور حالات و واقعات کی اصل تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں الیکٹرانک میڈیا اورانٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی پھیلنے سے مطالعے کا رجحان کم ہو گیا ہے، اب لوگ ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات اور تفریح حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت مسلم دنیا کے لیے ناگزیر ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدید خطوط پر پروگراموں کی تیاری کے لیے “پروڈکشن ہاوس” بنانے چاہئیں۔
اسلامی دنیا میں میڈیا سے وابستہ افراد کی فنی تربیت اور میڈیا کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری “میڈیا انسٹی ٹیوٹ” قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افراد تیار کرسکیں جو اسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کرسکیں۔
مغربی میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی کے جواب میں اگرچہ عالم اسلام میں بھرپور پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم میری نظر میں اس موجودہ دور میں ترکی نے میڈیا کے میدان میں پیش رفت کی ہے۔ انٹرنیٹ اورٹی وی چینلز کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن انداز میں پیش کی جا رہی ہے۔ تاہم مسلم ممالک میں جدید میڈیا ٹیکنالوجی سے ابھی تک خاطرخواہ استفادہ نہیں کیا جا سکا۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیش رفت کے لیے مؤثر اور جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اسلامی تحریکیں، میڈیا ادارے اور مسلم تنظیمیں ہرسطح پر اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پر منظم اور احسن انداز میں اقدامات اٹھائے تو امت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور موثر جواب دے سکے گی ۔
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی
ماشاء اللہ
بہت اچھا اقدام ہے
اللہ پاک مزید ترقیاں عطا فرماۓ
آمین