سانحہ مری

Article by Fazal Ahmad Rajpoot
مری میں اس وقت موسم صاف ہے، ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوئی ہے اور سڑکوں پر اکا دکا گاڑیوں کے علاوہ یہ کافی حد تک سنسان ہو چکی ہیں لیکن گھبراہٹ طاری کر دینے والے سکوت میں کسی سڑک کے اطراف برف میں پھنسی گاڑی سے ہی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہاں جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ایک سانحہ رونما ہوا تھا۔
مری کے مکین بتاتے ہیں کہ مری میں ہونے والے سانحے کی بنیاد جمعے کی صبح ہی سے رکھ دی گئی تھی۔ مقامی لوگوں، پھنسے ہوئے سیاحوں اور مری کے تاجروں کے مطابق جمعے کی صبح ہی سے مری میں بدترین ٹریفک جام دیکھنے کو ملا۔
مری میں کل تین ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ ہے لیکن اس روز کے اعداد و شمار کے مطابق 30 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئی تھیں۔ اور ان گاڑیوں میں موجود لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگائیں تو بات کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔
مری میں برفانی طوفان میں پھنس کر 22 افراد لقمہ اجل بن گئے جس کے بعد مری کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا اور تمام داخلی راستے بند کردئیے گئے۔
مری میں شدید برفاری اور رش میں پھنس کر 22 افراد کی ہلاکت کے بعد ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، برفباری میں پھنسے افراد کی آوازیں انتظامیہ تک ضرور پہنچيں لیکن انتظامیہ متاثرہ افراد تک نہیں پہنچی، لوگ 20 گھنٹے تک آسمان سے گرتی برف میں پھنسے رہے ،گاڑیاں دھنس گئيں۔
گاڑیوں میں پناہ لیے بے بس افراد کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ گاڑی بند کرکے حکومتی امداد کا انتظار کریں ، اسی انتظار میں انتظامیہ تو نہ پہنچی لیکن موت آن پہنچی ، لوگ اپنی گاڑیوں میں دم توڑ گئے۔
مری میں سیر و تفریح کے لیے آنے والے4 دوستوں نے برف پر سیلفی بھی لی تھی جو کہ ان کی زندگی کی آخری سیلفی ثابت ہوئی۔
جس گاڑی سے 8 لاشیں ملیں اس میں جاں بحق افراد میں اے ایس آئی نوید اقبال، ان کی تین بیٹیاں، بیٹا، بہن، بھانجی اور بھتیجا شامل ہے
اے ایس آئی نوید اقبال فون کال کر کے بھی بتاتا رہا کہ ہم اس وقت مصیبت میں ہیں ہمیں مشکلات درپیش ہیں برائے مہربانی انتظامیہ سے کہا جائے کچھ نا کچھ کریں لیکن اس کے کہنے پر بھی کسی نے نہیں سنی اور اس طرح وہ برف ہی میں پھنس کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اس کے علاؤہ جو دوسرے لوگ پھنس کر تکلیف میں مبتلا تھے وہ ویڈیوز بنا کر اور فون کال کر کے بتاتے رہے کہ کوئی گاڑی بھیجیں جو راستے سے برف صاف کرے لیکن کوئی نہ آ سکا سب انتظامیہ سوتی رہی اور ادھر لوگ برف میں پھنس کر مرتے رہے۔
کسی کو اتنا خیال نہ آیا کہ اگر یہاں ہماری اولاد ہوتی تو پھر ہمارا رویہ کیا ہوتا دوسری جانب حکومت اور انتظامیہ مری کی بدترین نا اہلی دیکھیں کہ جب لوگ مری کی طرف جا رہے تھے تو اس وقت گورنمنٹ کو خیال رکھنا چاہیئے تھا کہ جن کے پاس رہائش ہے اسی کو جانے دیا جائے یا موسم خراب ہونے کی وجہ سے راستہ بند کر دیا جاتا، اگر پنجاب میں سموگ وغیرہ کا پہلے سے بتا کر انتظام ہو سکتے ہیں تو یہ انتظامیہ اور گورنمنٹ کیوں سوتی رہی، ان بے حس لوگوں کو اس وقت ہوش آتا ہے جب دس یا بیس بندے مر جائیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اتنے بڑے حادثہ کے بعد ہمارے محترم وزراء صاحبان پریس کے دوران ہنستے رہے، ایسے ہنس رہے تھے کہ لگتا ہے انہیں تو کوئی حادثے کا علم بھی نہیں ہے۔
ایک طرف ایک مسلمان ہونے کے ناطے اب ہمارے مسلمانوں کی بے حسی اور بیغیرتی دیکھیں کہ جب مشکل حالات بنے تو اس وقت جو مری ہوٹل مالکان تھے انہوں نے وحشیوں والا کام کیا کہ مشکل میں ہم تو نوچ کے کھائیں دوسرا مرتا ہے تو مرتا رہے۔
محمد اشفاق نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ہوٹل مالکان نے اس آفت کے دوران سیاحوں سے منھ مانگے دام وصول کیے جو کہ بیس ہزار روپے سے چالس ہزار روپے تک بتائے جا رہے ہیں۔
محمد اشفاق کے اس دعوے کے برعکس صحافی عمران اصغر(بی بی سی اردو نیوز)کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد ایسے سیاحوں سے ملاقات کی جنھوں نے دعویٰ کیا کہ جس کمرے کا کرایہ شدید برف باری شروع ہونے سے پہلے تین ہزار سے سات ہزار روپے یومیہ تھا، برف باری کے پہلے روز اس کمر ے کا کرایہ بیس ہزار روپے جبکہ دوسرے اور تیسرے روز ان کمروں کا کرایہ تیس سے چالیس ہزار روپے کردیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ جب کچھ سیاحوں نے کرائے بڑھانے پر اعتراض کیا تو ہوٹل کے مالکان انھیں کمرہ خالی کرنے کا کہتے تھے۔
اب ان سوالات کی جانب آتے ہیں جن کا جواب یا زمہ داری کون قبول کرے اور اس جواب دے گا
محکمہ موسمیات نے مری کے حوالے سے کئی وارننگز جاری کیں، اس کے باوجود کیا متعلقہ محکموں نے جوائنٹ ایکشن پلان ترتیب دیا؟
کیا الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے سفری تجاویز جاری کی گئی؟
کیا اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں اور سیاحوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی پالیسی ترتیب دی گئی؟
جب مری میں رش ایک حد سے بڑھ گیا تو اسلام آباد اور مری کے داخلی راستوں پر گاڑیوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟
کیا ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی؟
کیا پھنسے ہوئے لوگوں کو پناہ دینے کے لیے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز کو ہدایات جاری ہوئیں؟
جب برف کا طوفان آیا تو ریکسیو آپریشن کی تفصیلات کیا تھیں؟ کیا لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر بروقت منتقل کیا گیا؟
کیا اس طرح کی ہماری سیاحتی انتظامات دیکھ کر کوئی غیر ملکی آئے گا؟
اب آتے ہیں ریسکیو آپریشن کی جانب کہ ان مشکلات میں پھنسے لوگوں کو کون کام آیا.
مقامی لوگوں کے ساتھ دعوت اسلامی کی فلاحی تنظیم FGRF بھی کسی سے کم نہ تھی انہوں نے بھی کافی مدد کی اور پانی اور خوراک کا بندوبست کیا۔
پھر آرمی کو بلایا گیا جو کوئی بھی آفت ہوں جہاں گورنمنٹ کے ادارے نہیں پہنچ ان مشکلات میں بھی آرمی سب سے آگے رہی اور آرمی کا کردار سب کی کارہائے نمایاں انجام دیا۔
سب پہلے جو کام آئی وہ تحریک لبیک کے کارکنان تھے جو اپنی حاجت کے مطابق ان سب کی مدد کرتے رہے اور نائب امیر تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان سید پیر ظہیر الحسن شاہ صاحب نے انتظامی امور کا جائزہ لیا اور لوگوں کو گرم کپڑے دیئے اور خوراک اور پانی مہیا کیا، تحریک کے بزرگ اور نوجوان لوگ گاڑیوں کو دھکا لگاتے رہے اور راستے سے برف ہٹاتے اس وقت نا کوئی اور کچھ تھا ان وزراء کو شرم آنی چاہیے جو بھارت فنڈنگ اور دہشت گرد کہتے رہے اب وہی تحریک لبیک کے لوگ پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے
اب عوام کو یہ سوچنا ہو گا دیکھنا ہو گا کہ کون پاکستان کے ساتھ مخلص ہے اور کون کھوکھلے دعووں میں لگا ہے؟
تحریر: فضل احمد راجپوت