کیسے مرغی کو بوتل سے نکالنا ہے؟
Article by Hafiz Muhammad Rehan
نوٹ: یہ تحریر عربی سے اردوکے اندر ترجمہ کر کے پیش کی جارہی ہے۔
کیسے مرغی کو بوتل سے نکالا جائے کہ بوتل بھی نہ ٹوٹے اور مرغی بھی نہ مرے۔
ایک بہت ہی قابل استاذ نے اس قصہ کو بیان کرتے ہیں کہ
ایک ٹیچر کمال کی ذہانت، حکمت اور اس کے ساتھ ساتھ فی البدیع گفتگو کی صلاحیت سے ممیز تھے اور وہ عربی زبان پڑھاتے تھے۔ وہ ایک سال اپنے شاگردوں کو دو آدمیوں کے سامنے پڑھا رہے تھے جو اس کی رہنمائی کے لئے آئے تھے۔
اور یہ سبق سالانہ امتحان سے کچھ ہفتے پہلے تھا۔ سبق کے دوران ایک طالب علم استاذ کی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگا اے میرے استاذ۔۔۔ عربی زبان بہت مشکل ہے۔ قریب تھا کے یہ لڑکا اپنی گفتگو مکمل کرتا کلاس کے تمام ہی طلباء نے وہ ہی بات کی اور ایسے ہوگیا جیسے گروہ ہوں اور آپس میں اعتراضات ہوں۔ یہ بول رہا تھا اور وہ چیخ رہا تھا اور یہ وقت کو ضائع کرنے پر اترایا ہوا تھا اور یہ خاموش تھا اور اس طرح استاذ تھوڑی دیر کے لئے اس صورت حال دیکھ کر خاموش ہوگیا اور پھر استاذ بولا : ٹھیک ہے آج ہم سبق نہیں پڑھتے بلکہ اس کے بدلے میں ایک گیم کھیلتے ہیں، تمام ہی طلباء خوش ہوگئے۔ اور وہ دو رہنمائی کرنے والے بھی موجود تھے۔
استاذ نے بورڈ پر ایک شیشہ کی بوتل ایسی بنائی کے جس کے سر والا حصہ کافی تنگ تھا اور اس کے اندر ایک مرغی کی بھی ڈرایئنگ بنادی پھر استاذ نے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم سب میں سے کون طاقت رکھتا ہے کہ وہ اس مرغی کو بوتل سے نکال دے اس شرط کے ساتھ کہ بوتل نہ ٹوٹے اور مرغی بھی نہ مرے، طلباء نے کوششیں شروع کردیں اور تمام کے تمام اس گیم میں فیل ہوگئے اور اسی طرح وہ دونون بھی جن کے لئے یہ پہیلی نما گیم سجائی گئی تھی۔ اور ان دونوں نے بھی اسکو حل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کوشش کام نہ آئی۔ کلاس کے آخر سے ایک بچہ مایوسی کی حالت میں چیخ کر بولا : اے میرے استاذ یہ مرغی اس وقت نہیں نکالی جاسکتی جب تک یا تو اس شیشہ کی بوتل کو نہ توڑاجائے یا پھر مرغی کو نا مارا جائے ۔ استاذ نے کہا آپ شروط کو نہیں توڑسکتے
ایک طالب علم نے غصے بھرے انداز میں کہا اگر ایسی بات ہے تو آپ بتادیں کہ جس نے مرغی کو اس کے اندر رکھا ہے وہ ہی اسکو نکالے گا، تمام ہی طلباء بہت زیادہ ہنسے لیکن ان کی ہنسی زیادہ لمبے عرصے تک نہ رہی اور ٹیچر نے اسکی آواز کو کاٹتے ہوئے کہہ بہت خوب: یہ ہی جواب ہے کہ جس نے شیشہ کی بوتل میں مرغی کو رکھا ہے وہ ہی اسکو نکال سکتا ہے۔اس طرح آپ لوگ ہو کہ تم سب بچوں نے اپنی عقلوں یہ مفھوم بٹھالیا کہ عربی زبان مشکل ہے ۔ پس اب میں جتنی بھی تشریح آپ کے لئے کردوں اور جتنی بھی کوشش کردوں اسکو آسان بنانے کی میں ہر گز کامیاب نہیں ہوں گا سوائے اس کے جب آپ خود ہی اس مفہوم کو(عربی زبان مشکل ہے) کو بغیر کسی کی مدد کے نکال نہیں پھینکتے، جس طرح آپ سب نے یہ مفہوم بغیر کسی کی مدد کے دماغوں میں ڈالا تھا۔
کلاس ختم ہوئی تو جو دو لوگ گائیڈرز آئے ہوئے تھے وہ اس ٹیچر کی بات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، جس طرح کے بعد کے لیکچرز میں اس چیز کا مشاہدہ کیا گیا کہ طلباء نے عربی زبان کے مادہ کو آسان و دلچسپی کے ساتھ قبول کیا۔
اس کہانی سے سبق یہ ملتا ہے کہ جب تونے اپنی عقل میں اس مفہوم کی بنیاد ڈال دی کہ کے کوئی بھی چیز مشکل نہیں سوائے اس کےتو نے اپنے ارادے سے اس کو مشکل بنا دیا ہے اور تو ہی اپنے ارادے سے اسکو آسان بنا سکتا ہے۔ جب یہی چیز ہے تو تو اپنے ارادہ سے اپنا ہر خواب حقیقت میں بغیر کسی رکاوٹ و مشکلات کے دیکھ سکتا ہے۔
اب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہم نے کتنی مرغیاں شیشہ کی بوتل میں رکھیں ہوئی ہیں۔ہماری پوری زندگی میں کتنی رکاوٹیں ہیں جو ہمارے سامنے ہمارے خوابوں اور امیدوں کے سامنے کھڑی نظر آتیں ہیں جن کو ہم نے خود کھڑا کیا ہے۔
کتنی تحدیات ہیں خاندانی ،اجتماعی اور تربیتی مشکلات ہیں جن کو ہم مشکل سمجھتے اور دیکھتے ہیں اور ان کے حل کو ناممکن جانتے ہیں اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے مرغی کو شیشہ کی بوتل میں رکھا ہوا ہے۔
الکاتب: حافظ محمد ریحان