دور ہٹو اے دشمن دین و ملت کے غدارو پاکستان ہمارا ہے
Article by Abrish Noor
یہ ملک لاکھوں قربانیوں سے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا کئی بے شمار جانوں نے اپنی دین و ملت پر قربان ہونے کے بعد ہمیں پیغام دیا کے اسکے محافظ رہنا جب کوئی دشمن اسکی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اسکی آنکھیں نوچ لینا، جب دین کو ضرورت پڑے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح فدا ہوجانا اور جب وطن آواز دے تو سوچ و بچار کیے بغیر اس پاک سرزمین پر فدا ہوجانا اس ملک میں دین کے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں اور وطن پر فدا ہونے کے لیے محب وطن شہریوں سے بھی مالا مال ہے۔ یہ سرزمین جس طرح دین و ملت کے حب دار کثرت سے پائے جاتے ہیں اسی طرح یہاں غدار بھی ہر صف میں شامل ہیں یا یوں کہہ لیں ہم نے آذادی تو حاصل کر لی لیکن ہم نے غداروں کے چنگل سے کبھی نکلے ہی نا تھے اور آج ان غداروں کی جڑیں اس قدر مظبوط ہوچکی ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے کیوں کہ ایک ملک کو سو دشمن اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا ایک غدار نقصان آرام سے پہنچا جاتا ہے اور پھر غداروں کی زریعے بڑی آسانی سے ہماری نسلوں کی زہن سازی کی گئی انکی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی، وہ دھوکا کیسا ہے کہ اس ملک کے وفاداروں کے خلاف کردیا گیا انہیں سکھایا گیا مولوی کی جگہ صرف امامت کروانا قرآن پڑھانا ہے اور جب امیر کی ضرورت ہو تو کوئی بھی شرابی چور اٹھ کر ہم پر حکومت کرے، ایک رشتہ طے کرتے ہوئے آپ لڑکی لڑکے کے شجرے کھنگالنے میں سال لگا دیتے ہیں اور پھر جاکر ایک چھوٹا سا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ جنکے ہاتھوں میں ملک سونپ رہے ہیں کیا وہ اس قابل ہیں؟ کیا انکے شجرے دیکھنا ضروری نہیں سمجتے؟ ان پڑھ شخص کو آپ اپنی بیٹی نہیں دیں گے تو جس دین کی الف بے تک نا آتی ہو اس اپنے ملک کے لیے کیسے منتخب کرسکتے ہیں؟
یاد رکھیے گا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتی جو اپنی حالت بدلنے کے لیے کوشش نا کرے خود کو نا بدلے، آپ اپنے ووٹ کی اھمیت کو یقینا کبھی جان ہی نہیں پائے۔
واصف علی واصف کہتے
جس سسٹم سے آپ الیکشن لڑتے ہیں اُس سسٹم میں آپ کا اسلام نہیں ہے، میں تو سِرے سے جمہوریت کا قائل ہی نہیں ہوں آپکا دین جمہوری نہیں جو اللہ کو نہیں مانتے انکے ماننے نا ماننے سے کچھ فرق نا ہوگا اللّٰہ موجود ہے یہی حقیقت ہے۔
اِسی طرح اولیاء، اِسی طرح آئمہ کرام، علم والے آدمی سو جاہلوں میں بھی گِھر جائے تو علم والاعلم والا ہے۔
جاہل کہتے ہیں اِس کو پھانسی لگا دو یہ کر دو، جو مرضی کرلو پھانسی لگا دو لیکن وہی ہے ”مقام اُس کا۔“
تو گویا کہ جمہوریت ، اگر زیادہ تعداد لوگوں کی بے وقوف ہو، تو دانا آدمی جو ہے وہ ختم نہیں ہو جائے گا
دانا پھر دانا ہے
لہذا اسلام میں جمہوریت کی بات ہی کوئی نہیں ہے، شہد کی مکھی کو کوئی ووٹ دے نہ دے اُس کے پاس فارمولہ ہے، اب ووٹ کس کو ضرورت ہے۔
”عطا کے سامنے تعداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
”عطا کرنے والا عطا کر رہا ہے“
ایک خوبصورت چہرہ ووٹ کی وجہ سے بنا؟
”اب ووٹ کی کیا ضرورت ہے اُس کو بن گیا“
تو عطا جو ہے نا عطا کے سامنے کسی تعداد کی ضرورت نہیں ہے، تعداد کا مقام ہی نہیں ہے، اسلام میں۔
یہ اوپر سے انتخاب ہو کے آرہا ہے، آپ نیچے سے نہیں انتخاب کرتے ہو وہ سارا فارمولہ فیل ہو گیا
انتخاب کیا ہے
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ
‘یقینا تم میں سب سے زیادہ با عزت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہے۔
اب متقی کا ساتھی کوئی نہیں ووٹ دینے والا،
کوئی گواہی تو یہ متقی ہےکہتا گواہ شواہ کوئی نہیں ہے، ایک گواہ مِلا کوئی ٹوٹا ہو بےچارہ غریب آدمی، یہ گواہ ہے۔
لہذا جو مقام اللہ کے ”نزدیک ہے، وہ شاید جمہوریت میں کام نہ آئے“
تو ہمیں جمہوریت کی غرض کوئی نہیں ہے۔
اگر جمہوریت سے خواتین آجاتی ہیں الیکشن میں تو اسلام کیا کرے اب اسلام تو جو ہے وہ ہے، اسلیئے یہ بڑا سوچنا پڑے کا کسی جمہوری حکومت کو اسلام کے فارمولے پر جج کرنا،
اسلام کو پہلے جج کرو جمہوریت کو بعد میں
جمہوریت کوئی نہیں ہمارے معاشرے میں ، یہی تو پرابلم ہے ہماری کہ ” نادان معاشرے میں ”دانا کو ووٹ کون دے گا۔
پیسے والے معاشرے میں غریب کو کون ووٹ دے گا، جب ووٹر ہی پیسہ مانگتا ہے تو کون دے گا ووٹ۔
اور امیر جاہل بھی ہو گا ظالم بھی ہو گا
اور ظالم اور جاہل کے مقابلے میں حق والا،
انصاف والا اور دین والے آدمی کو ووٹ کون دے گا۔
مولوی صاحبان اگر کسی حلقے میں ہیں ان کو ووٹ دیں، اِن کو آپ مسجد بھیج دیتے ہیں چندہ دے کے، ووٹ کے لیے برا ترین آدمی ڈھونڈتے ہیں جسکا نا کردار اچھا ہو نا تعلیم ہو نا شعور دین کو تو ہم دیکھنا سوچنا بھی گوارہ نہی کرتے تو اس ملک کا نظام کیسے بدلے گا؟ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے اگر آپ اسکو سمجھ جاتے ہیں تو میرے قلم کا حق ادا ہو جائے گا اور آپ سوچنے پر مجبور ہوہ جائیں گے کہ ایک امیر کا دین پر عمل کرنا ہی معاشرے کے لیے ملک کے لیے بہترین ہے واقعہ کچھ یوں ہے۔
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ترکی کے ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺗﯿﻞ ﺍﮔﺮﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ، ﻣﮕﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﮑﻢ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ ﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﭼﻞ ﮐﺮﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ کہ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮﺷﯿﺦ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ لکھ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ: ﺍﺫﺍ ﺩﺏ ﻧﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺸﺠﺮ ﻓﮭﻞ ﻓﯽ ﻗﺘﻠﮧ ﺿﺮﺭ؟
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﺭ ﮨﮯ؟، ﺟﺐ ﺷﯿﺦ ﺁئے ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﺎ : ﺍﺫﺍﻧﺼﺐ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﺍﻟﻌﺪﻝ ﺍﺧﺬ ﺍﻟﻨﻤﻞ ﺣﻘﮧ ﺑﻼ ﻭﺟﻞ ” ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﺗﺮﺍﺯﻭﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎں ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ!
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺁﺳﭩﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺩﺍﺭ ﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﺩ ﯼ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺴﺪ ﺧﺎﮐﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﻻیا گیا، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺠﮩﯿﺰ ﻭ ﺗﮑﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥﺁﭖ ﮐﺎ ﻭﺻﯿﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻭ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﺍ، ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺱﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺘﻮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎتھ ﺩﻓﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺛﺒﻮﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻓﺘﻮﯼٰ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ، ﯾﮧ دیکھ ﮐﺮﺷﯿﺦﺍﻻﺳﻼﻡ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﻮﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺗﮭﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ :ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟
اسلام کو نافذ کرو، پاکستان کو بچاؤ
بحوالہ:( تاریخ ترکیہ )
ﯾﮧ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯﺧﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎؤ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺑﺎﻭ ﺍﺟﺪﺍﺩﮐﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﮐﻮ ﺩﮨﺮﺍؤ ﺍﻭﺭ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭ ﻭﻗﺖ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎ ﺗﻮﺍﺯن ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔
امیر اگر علماء اور دین کے ساتھ رہے گا تو وہ دنیا پر حکومت کرے گا اور اگر علماء کو مساجد تک محدود کرنا چاہے گا تو نظام میں بگاڑ ہی بگاڑ پیدا ہوگا جو آج ہمارے ملک کی صورتحال ہے معیشت تباہ ہے امیر امیر ترین ہوگیا اور غریب غریب ترین ہوگیا اور یہی امیر ترین عوام کو گمراہ کرنے کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں ہم غریبوں کی تکالیف کو سمجھتے ہیں جنہوں نے گرمی سردی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو وہ کیا جانے غریب کے دکھ۔
اس ملک کے اندر جتنے مسائل ہیں اس کو حل کرنے کے لیے کوئی عیاش شرابی جو غریبوں کے مسائل سے دور دور تک بے خبر ہیں انہیں علم ہی نہی دال روٹی سبزی کے بھاؤ وہ کبھی غریب کو جان ہی نہیں سکتا غریب کے مسائل کو جاننے کے لیے اسکے جیسا شخص ہی ہوگا
واصف علی واصف صاحب سی حوالے سے ایک جگہ فرماتے ہیں
وہ آدمی اسلام نافذ کر سکتا ہے جس آدمی کا مال غریب ترین آدمی کے برابر ہو!
حضور پاکﷺ پورے ہیڈ آف دی کائنات تو ہیں ہی، ہیڈ آف دی سٹیٹ بھی ہیں، ہیڈ آف دی سٹیٹ کی زندگی پیغمبرﷺ کی زندگی ، رسالت ماّبﷺ کی زندگی ، سب سے بڑے انسان کی حیثیت سے زندگی، کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ انہوں نے غریب سے زیادہ اپنے آپ کو امیر رکھا ہو، آپ ﷺ کے دور میں اگر کوئی غریب ترین انسان تھا تو وہ آپ ﷺ ہی تھے اور سب سے بڑا مرتبہ تھا تو آپ ﷺ ہی کے پاس تھا ، سب سے زیادہ مبلغ تھے تو آپ ﷺ ہی تھے ، اور سب سے زیادہ خاموش رہنے والے تھے تو آپ ﷺ ہی تھے ، کائنات کے ذہین ترین انسان آپ ﷺ ہی ہیں ، اور تعاون کرنے والے ، رعایت کرنے والے آپ ﷺ ہی ہیں، اس ہستیؐ کے مطابق اگر آپ چلنا شروع کر دو تو پھر اسلام نافذ ہوتا ہے۔
آج مسلمان کیوں پستیوں میں گر گئے ہیں، دشمن نے بڑے ہوشیاری کے ساتھ ہمارے لوگوں کی زہن سازی کی علماء کے خلاف لا کھڑا کردیا اور قصور ان لوگوں کا نہیں اصل میں مولوی کو دکھایا ہی برا گیا ہے شدت پسند ایک تصویر کھینچ دی گئی ہے جس مٹانے میں یقینا ایک لمبا عرصہ چائیے ہوگا۔
قیام پاکستان سے اب تک نفاذِ شریعت سے فرار ہی اصل خرابیوں کی جڑ ہے اور اسی دوغلی پالیسی نے ملکی سالمیت کے لیے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ نفاذ شریعت کے لیے اسلام نے خلافت کا نظام وضع کیا ہے، جس کے احیاء کی اب پھر شدت سے ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر اسلام کا کھویا ہو ا وقار اور عظمت بحال نہیں ہو سکتی اس ملک کے کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے پاکستان نور ہے نور کو زوال نہیں اس ملک میں دین کا نفاذ تو ہوکر رہے گا چاہے دیر سے ہی لیکن اُجالا ہوگا یہ ظلم وبربریت کے اندھیرے ختم ہوں گے اس ملک کے کے ٹوٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ
یہ ملک آباد رہنے کے لئے بنا ہے اور یہ ملک تاقیامت آباد رہے گا ان شاءاللہ تعالیٰ
یہ صرف” بائیس کروڑ پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ
یہ مسلمانان عالم کا مستقبل ہے۔
اِس کی بنیادوں میں شہداء کا خون ہے۔
اب اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔
اسلام کی حفاظت اسلام خود فرمائے گا۔
اللہ حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حبیب ﷺ اس کے محافظ ہیں۔
آپ لوگوں کے پاس بہترین قسم کے فقیر ،درویش، بزرگ، صاحبانِ تدبیر اور بڑے بڑے لوگ موجود ہیں اور موجود رہیں گے
اور اس ملک کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔
جس نے یہ ملک بنایا ہے وہی اس کا محافظ ہے۔ آپ یہی اسمِ اعظم جاری رکھو کہ جس نے بنایا ہے وہی اس کا محافظ ہے۔
اس ملک کا بنانے والا اللّہ ہے اس نے اپنی مرضی سے بنایا اور اپنے کام کے لئے بنایا ہے وہی اس کا محافظ ہے اور وہی اسے قائم رکھے گا۔ اور یہ قائم رہے گا ۔
(واصف علی واصف)
اگر
ہم شہدا کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں صوفیا، علماء، فقرا کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں۔
اگر ہم اقبالؒ کے نصیب پر یقین رکھتے ہیں،
اگر ہم الله، الله کے حبیبﷺ پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں پاکستان کی سلامتی کا بھی یقین ہونا چاہیے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے آپ کی ذمہداری کیا ہے آپ کا انتخاب کیا ہے آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں ووٹ کس کو دیں گے کہیں آپ کا انتخاب وہ تو نہیں، جو آدمی باوقار، ذی وقار اور گدھا بن کے آئے گا ہمارے پاس، گاڑی پہ آئے گا، ہم آپ کے ملک میں یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے درو دیوار چمکا دیں گے روڈ گلیاں نالیاں بنا دیں گے یا پھر اس بار دین کے لیے قدم اٹھاؤ گے نظریہ کو ووٹ دو گے ؟
اگر آپ اپنی مسجد کے امام کو آپ کبھی منتخب نہیں کرو گے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے چلیں جنکا آپ نے انتخاب کیا ہے اسی کو مسجد کا امام بنادیں، کیا وہ اس قابل ہے کہ امامت کروا سکے؟ اس بار شرط رکھ دیں اور کہیں کہ کونسلر اپنے علاقے میں جمعہ تو پڑھائیں، ایک ساتھ ملا کے دیکھو خود بخود ہی مسئلہ حل ہو جائے گا۔
جو کسی علاقے یا ڈیپارٹمنٹ کا افسر ہے اُس کو چاہیے کہ تمام آدمیوں کو جمعہ پڑھائے، خطبہ خود دے تیسرے دِن اسلام نافظ ہو جائے گا یا استعفٰی دے دے گا، وہ کہے گا مجھے نہیں آتا۔ چلو اور کچھ نہیں آتا جنازہ پڑھا دے، جنازے کی دُعا ہی سنا دے، اب وزیر بندہ بنتا اور طرح سے ہے۔
اسلام اور طرح سے نافظ ہوتا ہے، لیکن یاد رکھیے گا آپ سے سوال ہوگا اس ملک پر عمران، نواز، زرداری جیسوں کا انتخاب کرنے پر اگر آپکو لگتا ہے یہ لوگ اس ملک کے وفادار ہیں تو مجھے کہنے میں زرا تردد نہیں کہ آپ خود اس ملک کے وفاداروں میں شامل نہیں۔
ایک انسان صرف ایک انسان جو” قائد اعظم کی طرح سب میں مقبول ہو قوم کے نصیب کو بدل سکتا ہے اور کسی ایک رہنما کے آنے کا عمل اتنا ناممکن نہیں۔
بلکہ ایسا ہو گا، ایسا ہوچکا ہے اور وہ ایک ولی کے جانشین علامہ حافظ سعد حسین رضوی اور ان شاءاللہ ایسا ہونے والا ہے، کیوں کہ یہی وہ مرد قلندر ہے جو ایک لیڈر ہے قوم کو گلیوں نالیوں کے لیے نہیں جگاتا بلکہ ایک نظریہ اور مقصد کے لیے قوم کو بیدار کردیا مخلتف مزاجوں کے لوگوں کو ایک مقصد کے پیچھے چلانے ولا ہی اصل لیڈر ہوتا ہے، آپ چاہے مانیں یا نا مانیں حقیقت یہی ہے کہ سعد رضوی کے علاؤہ کوئی اس ملک کا نا تو وفادار حکمران ہے نا خیر خواہ ، سعد رضوی صاحب کی ہمیں ضرورت ہے اور میرا یقین ہے۔
ان شاءاللہ عزوجل پاکستان میں ایک عظیم روحانی دور آنے والا ہے، تحریک لبیک کے جھنڈے تلے ہر مکاتب فکر کے لوگ ہوں گے ہر رنگ و نسل تمام فرقوں کے لوگ ہوں گے
اندیشہ نہیں کرنا چاہیے۔ اندیشہ عروج کا دشمن ہے۔
اللّٰہ تعالی ہمیں دین و ملت کے ساتھ ہمیشہ وفادار رکھے اور نظام مصطفی کے قیام کے لیے کی گئی جدوجہد کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ النبی الامینﷺ
تحریر: ابرش نور