عمر لاء
Article by Ali Abbas Rizvi
جڑانوالہ میں قرآن جلایا گیا، آقا علیہ الصلوة والسلام کی گستاخی ہوٸی، مسلمان دس گھنٹے سراپا احتجاج رہے کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی، مشتعل عوام نے ردعمل کے طور پر چرچ کو آگ لگاٸی۔ جج، صحافی، دانشور سب ہی بھاگ پڑے جڑانوالہ۔ تین سو لوگ زندہ جلانے والوں کو بھی چرچ جلنے پر دکھ ہوا، ماڈل ٹاٶن اور فیض آباد میں مظاہرین کو ریاستی تشدد سے قتل کرنے والی ن لیگی مریم کو بھی دکھ ہوا، 54 عشاقان مصطفیٰ ﷺ کو سیدھی گولیاں مار کر مسجد رحمة للعالمین کو لہو سے رنگنے والی پی ٹی آٸی کو بھی اقلیتوں پر ظلم ہوتا نظر آیا۔ کسی کو نظر نہیں آیا تو وہ گستاخ نظر نہیں آیا یا پھر وہ عیسائی اسسٹنٹ کمشنر نظر نہیں آیا جس نے بروقت قانونی کاررواٸی نہ کرکے شہر کا امن خراب کیا، انتظامیہ اور پولیس کا مہمان اداکاروں والا کردار نظر نہیں آیا، لاٶڈ سپیکر پر عوام کو ہنگامہ آراٸی سے روکتے اور گستاخ کے خلاف قانونی کاررواٸی کرواکے امن و امان بحال کراتے لبیک والے نظر نہیں آئے۔
ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں، چاروں نے ہمیشہ یورپ و آٸمہ کفر کی خوشنودی کے لیے ملک پاکستان میں گستاخوں کی سہولت کاری کی ہے، آج تک قانون ہونے کے باوجود کسی کو قرار واقعی سزا نہیں ہوسکی بلکہ انہیں ہمیشہ قانونی گرفت سے فرار کرایا گیا۔
آسیہ گستاخ کو ریاستی سہولت کاری سے فرار کرایا گیا، شکور قادیانی کو امریکہ کی ایماء پر چھوڑا گیا، نسیم نامی گستاخ کو کھلی چھوٹ دی گئی، ان سب باتوں کی وجہ سے عوام کا اعتبار ریاست پر باقی نہیں رہا، یہی اصل وجہ ہے جڑانوالہ واقعے کی، عوام کہتے ہیں ہم فیصلہ خود کریں گے کیونکہ گستاخوں کو ریاست چھوڑ دیتی ہے۔
ریاست پاکستان اگر اس جیسے واقعات کو روکنا چاہتی ہے تو چرچ جلنے پر دکھائی جانےوالی پھرتیاں قرآن جلنے پر بھی دکھانی ہوں گی، اقلیت کے ساتھ ساتھ اکثریت کی خواہشات کا احترام بھی کرنا ہوگا اسلام جہاں اقلیتوں کے حقوق بتاتا ہے، وہیں گستاخوں کو سزا دینے کا حکم بھی دیتا ہے۔ ریاست پاکستان فیصل آباد میں ہونے والی گستاخی کے مجرمین سے شروع کرے انہیں سزا دے کر اپنا اعتبار بحال کرے ورنہ قوم کے پاس پھر عمر لاء موجود ہے۔ ممتاز قادری سے لے کر تنویر قادری تک یہ اُمت حرمت شاہ بطحا ﷺ پر کٹنا جانتی ہے، پھر جڑانوالہ کے چرچ تو کیا دوجہان بھی جل جاٸیں تو ان کی آقاﷺ کی ناموس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، فیصلہ تمارے ہاتھ ہے گستاخوں کی سہولت کاری کرکے بدبخت بنتے ہو یا انییں سزا دیکر جڑانوالہ جیسے واقعات کا سدباب کرتے ہو!
تحریر: علی عباس رضوی