آخر تحریک لبیک ہی کیوں؟
Article by Bint E Hassan
ہم سرِعام گنہگار بھی ،غلط بھی ٹھہرائے گے
آخر اس شہر کے ہجوم میں ہم ہی مجرم ہیں
بہت دیر سے سنتی اور دیکھتی آ رہی تھی؛ لیکن آج اپنے اور بہت سے مخلص کارکن کی ترجمانی کرنے کی جسارت کرنے لگی ہوں۔میں گالی گلوچ کلچر کی خود بھی حامی نہیں ہوں نہ سمجھتی ہوں یہ کلچر کسی صورت بھی درست ہے یا فاہدہ مند ہے ؛خواہ وہ کوئی بھی ہو غلط ہے؛سر سرا غلط ہے لیکن اس کے باجود ایک ہی پارٹی کو تنقید زد میں رکھنا اور یہ تاثر دینا فلاں کا ووٹ بینک اس لیے کم ہوا؛ کہ اس پارٹی کےکچھ سوشل میڈیا کے لوگوں کا رویہ درست نہیں؟ کیا وہ گروانڈ رئیلاٹی سے ناواقف ہیں؟ یا اس بات سے نا بلد ہیں کہ الیکشن میں ہوتا کیا ہے اور اس مرتبہ ضمنی الیکشن میں بھی کیا کیا ہوا؟ پہلے خود غلط کاٹ کر خبر لگانا اور پھر بعد میں جب کارکن غصے میں کچھ کہیں تو بات بار بار تربیت پر لے جانا؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کہاں کا صحافت کا معیار ہے؟ صحافت کے اصول چھوڑ کر صحافت کرنا کہاں کی صحافت ہے؟ ایک آفاقی اصول ہے کہ جب کوئی خبر آئے تو اس کی جانچ پڑتال کر لو۔ لیکن یہاں گلی نکڑ پر کھڑے صحافیوں کے اپنے اصول ہیں جیسے بات کا علم سرے سے نہیں ہوتا لیکن شہر بھرمیں ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بے بنیاد الزام لگانا،ترید کی بجائے اگلے کو نیچا دکھانا صحافیوں کا اصول بن چکا ہے؛ جیسے صرف ان کے پاس ہی سارا علم ہے باقی تو انسان ہی نہیں ہیں۔”
کیا پی ٹی آئی ، ن لیگی یا پی، پی ،پی کا رویہ لہجہ سب درست ہے؟ وہ’وہ لوگ ہیں جن کی قیادت سے لے کر کارکن تک سب کے سب کی زبانوں پر لہو لگا ہوا ہے اور ہر بات پر گالی سے نوازتے ہیں؛ اداروں اور ملک کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے؛ سرِ عام ملک کے اساس اداروں کے خلاف ٹاپ ٹرینڈز چلاتے ہیں جس میں نا امور صحافی بھی شاملِ حال رہتے ہیں۔ صحافی حضرات پر غلاظت بھرے ٹرینڈ کرتے ہیں۔
خدا کے لیے جھوٹ کا سہارا لے کر حقائق چھپانا بند کریں کیا کسی صحافی یا کسی اور نے کسی دوسری پارٹی کے کارکن کی یوں تضیحک کی ہے جیسے تحریک لبیک کے کارکن کے ٹویٹ سکرین شارٹ لگا کر کی جاتی ہے ؟یا ویڈیو بیان میں کیا جاتی ہے؟ مکمنات میں سے ہے وہ لبیک کا کارکن ہی نہ ہو بلکہ لبادہ اوڑھا رکھا ہو ، لبیک کے لاکھوں کارکن مخلص ہیں جو تحمل مزاجی اور مثبت دلائل سے بات کرتے ہیں ؛ لیکن اخلاق سیکھانے والوں میں آج تک اتنی اخلاقی جرآت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں؛ بلکہ دلائل سے بات کرنے والوں کو بلاک کر رکھا ہوتا ہے ،کیوں کر دوہرا معیار؟ یا یہ کچھ اور ہے ؟ اس کے پسِ پردہ کچھ اور باتیں ہیں :جیسے میڈیا کو تو فالج ہو چکا تھا اور فالج آج تک ہے لبیک کا بیانیہ نہیں دیکھانا ،مکمل بائیکاٹ کیے رکھا؛ اب پوری منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کا ووٹ کم ہوا ہے؟” باقاعدہ صحافی حضرات لاکھوں کے موبائل ہاتھ میں لیے بنا جانچ پڑتال کے بے بنیاد الزام تحریک کے امیر اور تحریکی کارکن کے سر دھر دیتے ہیں؛ ایسے ہی کچھ لوگ باقاعد ٹویٹر حیسی سوشل ایپ پر سکرین شارٹ لگا کر باوار کروا رہے ہیں آپ کا ووٹ بینک اس وجہ سے کم ہوا ہے کہ آپ کے لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ درست نہیں؛ ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں ؛یعنی چند فرد جن کو لوگ ٹوٹیڑ پر جانتے ہیں،جنہوں نے خود کو خود ہی صحافی کا ٹائٹل دے رکھا ہے وہ لبیک کے خلاف مہم چلانے والے کون ہیں؟ پہلے تو وہ لوگ کون ہیں؟ کیا کسی چینل کے ٹھیکدار ہیں؟ یا ان کے دس دس چینلز چل رہے ہیں جن پر وہ لبیک کا بیانیہ چلا رہے تھے؟ ایسے لوگ پہلے اپنی تربیت پر دھیان کیوں دیتے؟
یہاں بھی سوال کہ اگر ایسا ہے تو کس سے ڈھکا چھپا ہے کہ تحریک انصاف 2014 سے اب تک کیا کرتی آئی ہے کس طرح سے ذہنی وجسمانی و معاشرتی و اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے؟
وہ لوگ کھلے دل سے بتائیں کہ کیا دوسری سیاسی پارٹیوں کے رویے لچک دار ہیں یا ان کے کارکن کے رویے لچک دار ہیں؟کیا ان کے کارکن آپ کو گالی نہیں دیتے؟کیا آپ ان کے یوں سکرین شارٹ لگا کر لیکچر جھاڑتے ہیں؟ آپ ایک ٹویٹ یا کوئی بات ان کے لیڈر کے خلاف یا ان کی پارٹی کے خلاف کر کے دیکھیں پھر آکر جواب دیجیے اور سکرین شارٹ دکھائیے گا؛آیا ان لوگوں نے آپ کو پھولوں کے ہار پہنائے یا پھر کچھ اور ہی ۔”
جس طرح سے تمام لوگ مل کر تحریک لبیک پر طنز و تضیحک کے نشتر چلاتے ہیں؛ پانچ سال سے آپ نے مکمل بلیک آوٹ کر رکھا ہے، اس پارٹی کے قائدین سے لے کر عام کارکن تک ظلم کی انتہا کر دی گئی ،الٹا عوام کو حقائق دکھانے کی بجائے تحریک لبیک کے کارکن کو ہی دہشت گرد کہا گیا، غلط کہا گیا ،انتہا پسند کہا گیا، یعنی الٹا چور کوتوال کو ہی ڈانٹے؟”
یہاں نام نہاد صحافت کی”ص” سے نابلد سب کے سب ارسطو تو کوئی افلاطون بنا ہوا ہے
سارے ارسطو ہی پہلے چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں اور جب ان کی پتنگ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے؛وہ سمجھ لیتے ہیں اب سارا آسمان ان کا ہی ہو گیا ہے؛جب کہ بھول جاتے ہیں جنہوں نے ان کی پتنگ آسمان تک پہنچائی تھی ،ڈور انہی کے ہاتھ میں رہتی ہے ۔
تلخ رویوں اور لہجوں کی مار،مار کر لوگ الٹا مرنے والے سے ہی گلے شکوے کرنے لگتے ہیں۔ جب سے تحریک بنی ہے تب سے لے کر اب تک بڑے بڑے مگرمچھوں نے اس پلیٹ فارم سے شہرت حاصل کی اور بعد میں بابا جی خادم رضوی رحمتہ اللہ علیہ” امیر محترم سعد بھائی” اور قیادت پر انگلی اٹھانا شروع کر دی۔ آپ صحت مند بحث کریں ،صحت مند تنقید کریں لیکن طنز اور تضحیک میں فرق رکھیں تو کارکن بھی لچک دار رویہ رکھیں گے جب آپ کہیں ہم صحافی ہیں اور کسی خاص پارٹی کے ترجمان بن جائیں تو پھر ایسے لوگوں سے ستائے ہوئے لوگوں کے الفاظ زہر ہی اگلتے ہیں؛کیوں کہ کچھ آستین کے سانپ بن کر ڈس چکے ہوتے ہیں اور وہ زہر ختم ہونے میں وقت لیتا ہے۔ جنہیں معاشرہ یکسر مسترد کر دے ؛ ایک ملک کے شہری ہونے کے حقوق ضبط کر لیےجائیں، کسی کی آواز کو بار بار دبا دیا جائے، بات نہ سنی جائے تو آپ کیا امید رکھتے ہیں ؟معاشرہ جن سے لاتعلقی کر لے وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں ہم جانتے اور مانتے بھی ہیں لیکن ہر مرتبہ ہم ہی غلط ہوں اور آپ ہی صحیح ہوں یہ قطعاً مکمن نہیں۔ پوری قوم کا اخلاق تباہ ہو چکا ہے لیکن صرف لبیک والوں پر تنقید کیوں؟ کیوں ہر کوئی ان پر ہی طنز کے تیر برساتا ہے ؟ کیوں آپ صحافی حضرات دودھ کے دھلے ہیں؟
مجھے بتایا جائے کیا عمران خان نے مذہب کارڈ کا استعمال نہیں کیا؟ کیا کسی سے ڈھکا چھپا ہوا ہے؟وہ تو خود کو عاشق رسولﷺ کہتا پھرتا ہے ،لاتعداد آن ریکارڈ بیان موجود ہیں کیا کبھی کسی بھی صحافی نے اس کی اس طرح تضحیک کی ہے؟ کیا کبھی کسی نے اس سے سوال کرنے کی جرآت کی ہے آیا خان صاحب آپ کو پہلا کلمہ بھی ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتا،اور آپ کو دین کی ترجمانی کا بخار چڑھا ہوا ہے؟ اور آپ اتنے بڑے دعوے کرتے ہیں الٹا آپ اداروں کے خلاف اپنے لوگوں کو سرِ عام بیانیہ دیتے ہیں؛ اپنے کارکن کی تربیت درست کر لیں؟ کیا کسی نے مریم نواز کو مشورہ دیا ہے کہ بی بی تم سرِ عام اداروں کی بدنامی کرتی ہو لوگوں سے خطاب کرنا سیکھ لو؟ تم دوسروں کی میبینہ ویڈیوز بناتی ہو ،بی بی کچھ لحاظ سیکھو،معاشرے کے کچھ آداب سیکھو؛معاشرے کے کچھ اصول سیکھ لو
کیا ابھی تک کسی صحافی کی غیرت کا معیار وہاں تک نہیں پہنچا ؟ کہ ملک کی لیڈنگ پارٹیوں سے اخلاقیات کا سوال کر سکیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اپنے گریبان چاک کریں، ایک طرف کا غلط آپ کو صحیح لگ رہا ہے اور دوسری طرف کے یکسر مسترد کیے گئے لوگوں کے رویوں سے مسئلہ ہو رہا ہے۔ جب کہ بجائے آپ جاننے کی کوشش کریں کہ کسی کا رویہ آپ سے غلط کیوں کر ہے الٹا آپ لوگ خود کو سیانے سمجھ کر سارے ملک کے نمائندے بن جاتے ہیں؛ جب کہ ٹھیک ہے آپ اصلاح کریں لیکن اصلاح کرنے والوں کے لفظوں میں بڑا فرق ہوتا ہے جو میں نے عموماٙٙ دیکھا ہے کہ تاثر دیا جا رہا ہوتا ہے جیسے آپ ہر لحاظ سے غلط ہو بس ہم اور ہماری باتیں ٹھیک ہیں؛ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، اس بات کو سمجھیں کہ بڑی مدت بعد ایک ایسی جماعت کھڑی ہوئی ہے جس نے اسلام پسندوں کی بات کی ہے جس نے بجھے دیے کو لُو کی امید باندھی ہے بہت سے لوگ اس سے جذباتی طور پر وابستہ ہیں؛ کیوں کہ پہلے دن سے لے کر آج تک اس جماعت کے قائدین کسی بات پر جھکے نہیں ؛ خیر یہ تو اور بحث ہے لیکن آپ لوگ کارکن کے رویوں سے اگر پریشان ہیں تو تھوڑا سا خود پربھی دھیان دیں کہ کارکن بہت سے لوگوں کے ڈسے ہوئے ہیں جو لوگ غیر جانبدار رہ کر کا کر رہے ہیں ان میں چند نام ہیں ، لبیک کے کارکن ان کو کچھ نہیں کہتے آخر کیوں؟ وہ لوگ بھی سب پارٹیوں کی خبر دیتے ہیں پھر آخر ایسا کیا ہے کہ وہ آپ چند کو نشانہ بناتے ہیں؟ اور کیوں بناتے ہیں اگر آپ یہ جان لیں گے تو پھر مجھے نہیں لگتا آپ کو فرق پڑے گا ،ویسے بھی سوشل ایپ پر کون کیا ہے کیا نہیں یہ جانے بنا اس کی پروفائل تصویر سے اندازہ لگا کر سکرین شارٹ لگا دینا؛ کہاں کی اخلاقیات ہیں؟ اور نہ ہی ایسا کسی صحافی کو زیب دیتا ہے ؛اگر بالفرض وہ اسی پارٹی کے ہیں بھی تو آپ کا رویہ لچکدار کیوں نہیں؟ آپ بطورِ صحافی انسان ہیں اور جن لوگوں نے قدم قدم پر ٹھوکریں کھائی ہوئی ؛ معاشرے نے ہر طرح سے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہو؛ کیا وہ لوگ انسان نہیں ہیں؟ کیا وہ اس ملک پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ان کا اس ملک کے اداروں یا مشینری پر کوئی حق نہیں؟ کیا ان لوگوں کے سینوں میں دل نہیں؟ کیا ان لوگوں کے احساسات نہیں ہیں؟ جو مسلسل کچلے جا رہے ہیں؟ سوال تو بہت ہیں لیکن ان کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے؛ لہذا ہم آپ سب بڑے بڑے تجزیہ نگار،کالم نگار اور صحافیوں سمیت سیاسی پارٹیوں کے ترجمانوں کے گوش عرضی ہے کہ آپ یا تو کارکن کے رویوں کے پیچھے چھپے حقائق سمجھ لیں؛ یا آپ سب کے سکرین شارٹ لگایا کریں؛ یا لبیک والوں کے بھی مت لگایا کریں آپ کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ آپ بیٹھ کر سب کے تبصرے پڑھو پھر چن کر خاص کر لبیک والوں کاسکرین شارٹ لگاو؟ صحافت کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ آپ میں اخلاقی برداشت کا اتنا فقدان پایا جاتا ہے؛کہ صحافت کے بنیادی اصولوں کو سمجھے بغیر آپ خاص پارٹی کے ترجمان بن بیٹھتے ہیں۔ چمچماتی روشنیوں میں کھو کر اصلیت کو مسترد کر دیتے ہیں؛ معاف کیجیے یہ صحافت قطعاٙٙ نہیں ہے۔اسے چمچہ گیری کہا جاتا ہے۔
کچھ صحافیوں کی اخلاقیات کا معیار نظروں سے گزرا آپ سن کر دیکھ کر عیش عیش کر اٹھیں گے؛ وہ ایک معروف بدنام زمانہ ماڈل گرل کے تبصرہ سکیشن میں عجیب و غریب لفظوں کے ساتھ گھلچھڑے اڑاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے بہت سے جوابات اور اسکرین شارٹ ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔
آخر پر میرا اپنے تحریکی بہن بھاہیوں سے التماس ہے ازراہِ کرم آپ لوگ ان لوگوں کو سر پر نہ چڑھایا کریں نہ امید باندھا کریں،جب امید ٹوٹے تو آپ کو ایسا رویہ اختیار کرنے پڑے، دوسرا نام نہاد صحافیوں کو صحافی ہی رہنے دیا کریں نہ کہ انھیں اپنی پارٹی کا کارکن یا اہم فرد سمجھ لیا کریں؛ اپنی اہمیت جانیں اور خود کو پہچانیں۔ آپ کی منزل بہت اہم اور سب سے جداگانہ ہے؛ اس لیے اپنے الفاظ بھی دوسروں سے الگ رکھیں اپنا معیار بھی منفرد رکھیں۔ اپنا انداز زمانے سے جدا رکھیں ؛جو آپ کی پہچان بن جائے ۔اپنی پہچان اپنا چہرہ ان الفاظ چور ، قلم فروش اور ضمیر فروشوں کے لیے مت خراب کریں.
جزاک اللہ خیرا کثیرا
تحریر : بنت حسن
ماشااللہ بہت اچھا آرٹیکل بہت اہم مضوع پر قلم چلایا۔
اللہ تعالی آپ کے قلم کو مذید قوت بخشے بہت ہی عمدہ تحریر بہترین موضوع پر برموقع