|انتہاء پسند مسلمان نہیں بلکہ یہود ونصاریٰ ہیں|

Article By Ehsan Shahani
پوری دنیا میں اور پاکستان میں ایک رٹا رٹایا جملہ مشہور ہے بلکہ ایک طرح کا یہ ماحول بنا ہوا ہے کہ مسلمان انتہاء پسند ہیں، دہشتگرد ہیں، مسلمانوں نے پوری دنیا کا ماحول خراب کیا ہوا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان ہر جگہ نفرت پھیلاتے ہیں، کفار مختلف طریقوں سے اسلام کو اور مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں یہ جملے مسلمانوں کو نہیں بلکہ اسلام پہ جملے کستے رہتے ہیں اور یہ رواج بن چکا ہے کہ کہیں پہ بھی مسئلہ ہو جائے تو بغیر تحقیق کیے ہی اسلام اور مسلمانوں پہ الزام لگا دیتے ہیں۔
میں نے سوچا کیوں نا یہ موازنہ کیا جائے کہ مسلمان انتہاء پسند ہیں یا پھر کفار انتہاء پسندی و دہشتگردی میں آگے ہیں۔ کونسا اسلامی ملک بچا ہے جہاں پہ یہود ونصاریٰ نے ان کے ممالک میں گھس کر دہشتگردانہ کارروائی نہ کی ہو۔ اور کونسا ملک بچا ہے جس میں انہوں نے تعمیر نو کے نام پہ دہشتگردانہ کارروائی کر کے رہائشی جگہوں، سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کو بموں سے اڑا کے، انسانیت کو روند کے، اپنے مقاصد پورے نہ کیے ہوں۔
یہی کفر برصغیر میں تجارت کے نام پہ داخل ہوا، مسافر بن کر داخل ہوا اور آہستہ آہستہ سیاست میں بھی پنجے گاڑے اور پھر طاقت میں آکر مسلمان ریاستوں پہ قبضہ کرلیا اور ریاستوں کے سربراہان کو بھی پابند سلاسل کیا اور جیلوں میں درد ناک اذیت دیتے رہے اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تو رنگون (برما) کی جیل میں ڈال دیا اور ان کے اہل خانہ کو بھی قید کردیا اور تاریخ میں یہاں تک درج ہے کہ بہادر شاہ ظفر کو جیل میں ان کے پوتوں کے سر کاٹ کر ناشتے میں دیے جاتے۔
کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اگر ہم قید ہوتے اور ہمارے بچوں کے بچیوں کے سر کاٹ کر ہمیں ناشتے میں دیتے، یا ہمارے سامنے ہمارے بزرگوں اور عورتوں کو ذبح کرتے، شاید یہ ہمارے لیے بھی ایک قیامت کے عذاب سے کم نہ ہوتا اگر ہمارے سامنے ایسا ہوتا ۔
افغانستان میں سب سے پہلے روس داخل ہوا اور 20 سال سے زیادہ عرصہ تک افغانستان میں رہا اور مسلمانوں پہ بمباری کرتا رہا اور افغان بچے بچیوں، عورتوں، بزرگوں کو ٹارگٹ کرتا رہا اور آدھا افغانستان کھنڈر بنا دیا اور جب اپنے مقاصد پورے ہوگئے تو پھر اپنے ملک بھاگ گیا۔اس پر بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں تک کافی ہے۔
روس کے بعد امریکہ جیسا ظالم ملک افغانستان میں داخل ہوا اور کہا کہ وہ افغانستان میں تعمیر نو کرنا چاہتا ہے۔ لیکن تعمیر نو صرف بہانہ تھا اور اصل میں مسلمان نشانہ تھا ۔ امریکہ 20 سال تک معصوم بچوں و نہتے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتا رہا۔ افغان عوام کی ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا اور انہیں دہشگردوں کا آلہ کار کہہ کر ان کا خون بہاتا رہا۔ ظالم نے مدرسے میں معصوم حافظ قرآن بچوں کی دستار بندی کے دن بھی بم حملے کیے اور ابھی حافظ قرآن اپنی حفظ کی ڈگری لے کر گھر بھی نہیں پہنچتا تھا کہ امریکہ جیسا انسانیت سوز ملک ان مدارس پہ حملہ کر دیتا تھا اور ماؤں بہنوں کو خوشی منانے سے پہلے ہی ان کی جھولیوں میں معصوموں کے لاشے ملتے تھے۔
امریکہ نے افغانستان کے مقام تورا بورا کی پہاڑیوں پہ اتنا بمباری کی کہ نیچے زمین سے بھی پانی نکل آیا ۔ امریکہ 20 سال تک افغانستان میں موجود رہا اور سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں پہ حملے کرتا رہا اور عمارتوں کو مسمار کرتا رہا۔ افغان عورتوں کی عزتوں سے کھیلتا رہا، جس کو مارنے کو دل کرتا انہیں دہشگرد کہہ کر گولیوں سے بھون ڈالتا تھا۔ یہاں تک کہ حال ہی میں امریکہ افغانستان سے نکلا تو اپنے آخری دن تک بھی افغانستان میں بم بمباری کرتا رہا اور جاتے ہوئے بھی مسلمانوں کا خون بہاتا رہا اور حد یہ تھی کہ جن افغانیوں نے ان یہود ونصاریٰ کی مدد کی یہ منافق ملک ان لوگوں کو بھی سیدھی گولیاں مارتا رہا۔
400 قرآن مجید کے نسخے امریکی فوجیوں نے جلاٸے اور قرآن مجید کو استغفراللہ گٹروں میں ڈالا۔ کیا ہمارے مسلمانوں نے کبھی کسی مذہب کی کتابوں کو جلایا ہے؟ کیا کبھی کسی نے پادریوں کے پوپ کو برا بھلا کہا ہے؟ لیکن خود کو پرامن کہلانے والے مغربی ممالک ہر سال بلکہ آئے روز ہمارے آقا و مولا ﷺ کی گستاخیاں کرتے ہیں، لیکن انتہاء پسند پھر بھی مسلمانوں کو کہتے ہیں، پھر امن کی تلقین کی بھی ہمیں کرتے ہیں کہ امن سے رہو کسی کو کچھ نہ کہو۔
یہی وہ امریکہ جیسا درندہ ملک ہے جس نے ہماری بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ یاد ایک بوڑھی عورت کو 86 سال قید کی سزا سنانا کونسی انسانیت ہے۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ کے پاس حاتم طائی کی بیٹی ننگے سر آئی تو ہمارے نبیﷺ نے اس کے سر پر اپنی چادر مبارک دے دی اور طاقت کے باوجود اسے اس کے ملک بھیج دیا۔ ہمارا اسلام تو غیر مسلموں سے بھی حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے لیکن یہ کیسے درندے ہیں جنہیں بوڑھی عورت کا بھی احساس نہیں ہوا۔
اب مسلمانوں کو انتہاء پسند کہنے والے بتائیں کون انتہاء پسند ہے، کون دہشتگرد ہے مسلمان ہیں یا پھر کفار؟ یہ تو افغانستان کا احوال لکھا ہے اور مزید لکھنے کو بھی الفاظ باقی ہیں۔ ابھی درجن مسلمان ممالک برما، یمن ،شام، عراق، چیچنیا ، بوسنیا، بھارت ،کشمیر، فلسطین، باقی ہیں اور ان کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھنا باقی ہے۔ کائنات کا سب سے بڑا دہشتگرد کفر ہے جس طرح سور فصل برباد کر دیتا ہے اسی طرح کفر نے مسلمانوں کو لتاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پھر کہتے ہیں مسلمان دہشتگرد ہیں۔
امریکہ نے افغانستان کا یہ حال کیا لیکن کسی بھی یہودی، ہندو، عیسائی، پادری ریاست نے یہ نہیں کہا کہ امریکہ دہشتگرد ہے لیکن مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک چیونٹی کو بھی تکلیف ہو جائے تو یہ عالم کفر سارے مل کر مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیتے ہیں اور امن امن کی رٹ لگاتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب سے امریکہ آزاد ہوا ہے اور اب تک اس کی پوری تاریخ پہ دہشگردی کی کتاب لکھی جاسکتی ہے، یہ اتنا بڑا دہشتگرد ہے۔
یہاں تو پاکستانی لبرل، ملحد، قادیانی نواز اور میڈیا جیسے منافق لوگ ہی مغربی ممالک کو راضی کرنے کے لیے مسلمانوں کو انتہاء پسندی کے جملے کستے رہتے ہیں۔
حالانکہ اسلام سے بڑھ کر کوئی خوب صورت، عدل و انصاف والا مذہب نہیں ہے اور مسلمانوں سے بڑھ کر کوئی امن پسند نہیں ہیں۔ یہود و نصارٰی کی سازشیں ناکام ہوتی رہیں گی قیامت تک اسلام اور پاکستان کا بول بالا ہوتا رہے گا۔
تحریر: احسان شہانی