طلاق اور مسلمان معاشرہ
Article By Abroo Rajpoot
وَّ خَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًاۙ
اور ہم نے تمہیں جوڑے پیدا کیا
اللہ عزوجل نے بنی نوع انسان کی تخلیق کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے نکاح جیسا خوبصورت اور مقدس رشتہ عطا کیا، حرام کو چھوڑ کر ایک حلال و پاکیزہ رشتہ عطا فرمایا،
نکاح کرنا جہاں بعض صورتوں میں سنت ہے تو بعض صورتوں میں یہ فرض بھی ٹھہرتا ہے۔
نکاح صرف دو لوگوں کا باہمی تعلق نہیں بلکہ دو خاندانوں کے تعلقات کی بنیاد رکھتا ہے۔
نکاح سے جہاں دینی دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں اسکا ٹوٹ جانا بہت سے نقصانات کا باعث بنتا ہے اور اس صورت میں نقصان زیادہ ہوتا ہے جب وہ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوں۔ حلال کاموں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے اور ایک روایت کے مطابق(مفہوم) شیطان پانی پہ اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے چیلوں سے انکی کارکردگی پوچھتا ہے تو جب اسے کوئی یہ بتاتا ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ جوڑے میں طلاق کروائی ہے تو وہ اسکو داد و تحسین سے نوازتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے جو کہ ہمارے لیے ایک مسلمان اور مشرقی معاشرہ ہونے کی حیثیت سے زیادہ خوفناک ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟
آئیے طلاق کی چند بنیادی وجوہات اور اس کے نقصانات اور اسکی روک تھام کے لیے چند تجاویز کا جائزہ لیتے ہیں۔
طلاق کی بنیادی وجہ فریقین کا اپنے فرائض سے غافل ہونا ہے، میں یہاں بات حقوق کی نہیں کر رہی، مغرب نے ہمارے درمیان حقوق، حقوق کا ایسا راگ الاپا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے حقوقِ حاصل کرنے کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے لیکن فرائض کی فکر ہم سب کو بھول گئی، اگر ہم اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیں تو حقوق خود بخود ملنا شروع ہو جائیں گے، فریق اول کا فرض فریق ثانی کا حق بنتا ہے اور فرائض کی ادائیگی ہمارے حقوق تک کی راہ ہموار کرے گی، چونکہ میں اس وقت مسلمانوں کے معاشرے سے مخاطب ہوں تو نکاح کرنے سے پہلے فریقین کے لیے لازم ہے کہ وہ نکاح کے شرعی مسائل اور حقوق زوجین کو بغور پڑھیں اور اس پہ عمل کریں۔
طلاق کی دوسری بنیادی وجہ عدم برداشت ہے، اگر ہم اپنے معاشرے کے کامیاب شادی شدہ جوڑوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو یہ امر روز و روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ ان کی کامیاب شادی شدہ زندگی کا راز ایک دوسرے کی غلطیوں کو برداشت کر کے معاف کرنا ہے، میں یہ بات واضح کرتی چلوں کہ میں ظلم برداشت کرنے کو بالکل نہیں کہہ رہی اور نہ ہی ہمیں اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی ذات پہ ظلم برداشت کرتے جائیں، ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور وہ بھی اس شخص تک بات پہنچائیں جو معاملات کو حل کر سکتا ہو، اپنی زندگیوں میں چلنے والے معلاملات کا ڈھنڈورا پیٹنا ہرگز کوئی عقلمندی نہیں اور یہ زندگی ہے کوئی مووی کا سین نہیں جہاں سب اچھا ہو گا، اگر 2 لوگ ساتھ رہتے ہیں تو ان دونوں کو ایک دوسرے کی تلخ باتوں اور غلطیوں کو معاف کرنا ہوگا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ دو لوگ ساتھ رہیں اور لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔
عدم اعتماد طلاق کی ایک اور بنیادی وجہ ہے اور معذرت کے ساتھ شک کی بنیادیں کھڑی کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ یہ گھر والے قریبی لوگوں کا ہوتا ہے وہ بہو جو پہلے بےعیب لگتی ہے اس میں پھر ہزار طرح کے نقص نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ساس جو پہلے ماں جیسی لگتی ہے ایک دم وہ دشمن کیوں نظر آنے لگتی ہے؟ اگر آپ اپنے شوہر کے سامنے اسکی ماں کی برائیاں بیان کریں گی تو وہ آپکے گلے میں پھولوں کے ہار نہیں پہنائے گا، اور اگر اسی طرح شوہر اپنی بیوی کے سامنے اسکے والدین کی یا اسکے گھر والوں کو برا بھلا کہے گا تو بیوی کے دل سے اتر جائے گا، احتیاط لازم ہے۔
ساس کو اگر بیٹا رن مرید لگتا ہے تو داماد کی وہی عادت اسکی اچھائی کیوں شمار ہوتی ہے؟ ہمیں اپنے دوہرے معیار سے نکل کر خود سے وابستہ رشتوں کے ساتھ مخلص ہونا ہو گا اور عدل و انصاف والا باہمی ربط رکھنا ہو گا تو گھر جنت کا گہوارہ ضرور بنے گا۔
طلاق کی ایک اور وجہ دنیاوی مال و دولت کی چاہ اور خواہشات کا غلبہ ہے، وہ سب کچھ جو آپ کے والد محترم نے آپ کو پچاس سال کی عمر میں مہیا کیا اپنے شوہر سے 28، 30 سال کی عمر میں اسکی توقع رکھنا سراسر بےوقوفی ہے اور پھر اس کو بنیاد بنا کر روزانہ کی بنیاد پر گھر میں لڑائی جھگڑے کرنا آہستہ آہستہ فریقین کو ایک دوسرے سے بدظن کر دیتا ہے اور حلال کا وہ مقدس رشتہ پھر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے، شوہر کا فرض ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی استطاعت کے مطابق آسائشیں فراہم کرنے کی کوشش کرے اسکا خیال رکھے اور اس سے محبت والا رویہ رکھے(اس پہ تو پیسے نہیں لگتے نا) اگر اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا سیکھ جائیں گے تو زندگی بہت آسان ہو جائے گی۔
وجوہات تو اور بھی ہیں لیکن تحریر کی طوالت کے خوف سے میں آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ خدارا نکاح جیسے مقدس رشتے کو اپنی جذباتیت کی نذر نہ کیجیے، ایک دوسرے کا اور ایک دوسرے سے منسلک باہمی رشتوں کا احترام کیجیے، آج کے اس ڈیجیٹل دور میں “کمیونیکیشن گیپ” رشتوں میں ایسا خلا بھرتا ہے جسے عبور کرنا ممکن نہیں رہتا لہذا ایک دوسرے کو وقت دیجیے، ایک دوسرے کے مسائل کو سنیے، انکو حل کرنے کی کوشش کیجیے، اللہ نے چاہا تو ایک مثالی زندگی آپکی منتظر ہے۔
اللہ پاک تمام شادی شدہ جوڑوں کو خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین۔
تحریر: آبرو راجپوت
