Blasphemy Law 295-C | تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کا قانون ہے
Article by Raja Azhar Hayat Attari
اس قانون میں تبدیلی کیلئے پاکستان میں موجود لبرلز، قادیانی اور دین دشمن عناصر متحد ہو کر کام کر رہے ہیں۔
ان چند کفار کے آلہ کاروں سمیت پورا یورپ پاکستان کے آئین
295C
میں تبدیلی کیلئے سرگرم ہے۔اور اس قانون پر پے در پے حملے کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ابھی تک اس قانون میں تبدیلی کیوں ممکن نہیں ہو سکی؟
کفار یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمان چاہے جتنا بھی سیاسی اختلاف رکھ لیں، جیسی بھی دشمنیاں پال لیں ، یہ اپنے نبی پاک ﷺ کی ذات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ چاہے پاکستان کا مسلمان تحریک لبیک پاکستان سے وابستہ ہو تحریک انصاف سے ہو ن لیگ سے ہو یا کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک ہو وہ اس قانون کے خلاف کبھی نہیں جا سکتا، کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔ یورپ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے محبت مسلمانوں کا ایمان ہے اس میں کمی بیشی انکو ایمان سے خارج کر دے گی اس لئے مسلمان کبھی بھی قانونِ ناموسِ رسالت ﷺ پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اس کا ایک تجربہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر پر کیا گیا۔ اس نے اس قانون کو غلط الفاظ میں بیان کیا اور اپنے وقت کا مضبوط گورنر ہونے کے باوجود، ساری طاقتیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود اس کو سرِ عام قتل کر دیا گیا۔
اور غازی ملک ممتاز حسین قادری علیہ الرحمہ نے یہ بات واضح کر دی کہ قیامت تک جب بھی کوئی اس قانون کی جانب میلی نظر سے دیکھے گا تو اس کا انجام یہی ہوگا۔
دوسرا تجربہ ن لیگ کی حکومت میں کیا گیا جب حلف نامے میں تبدیلی کی گئی اور قادیانیوں کیلئے رستہ صاف کرنے کے کوشش کی گئی۔ لیکن تحریک لبیک پاکستان نے تاریخ کا سب سے بڑا ظلم برداشت کیا اور درجنوں لاشیں اٹھا کر حلف نامے کو واپس اپنی اصلی حالت میں تبدیل کروا کر قادیانیت کو اپنی اسمبلیوں میں جانے سے روک دیا۔
اسی طرح پھر اس قانونِ ناموسِ رسالت ﷺ کو متنازعہ بنانے کیلئے عوام کے ذہن کو منتشر کرنے کیلئے کئی پری پلان واقعات رونما کروائے گئے جن میں قابل ذکر یہ ہیں؛
قائد آباد بینک مینجر کا قتل
سیالکوٹ میں ایک غیر مسلم کا قتل
یہ کروانے کے ساتھ ہی ایک فلم (زندگی تماشہ) ریلیز کروانے کی کوشش کی گئی جس کی پوری کہانی میں یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور جس کو قتل کرنا مقصود ہوتا ہے اس پر توہینِ مذہب یا گستاخِ رسول ﷺ کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔
اب اسی چیز کو آگے بڑھایا جا رہاہے اور اس کو عمران خان کے ساتھ منسوب کیا جا رہاہے۔کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا پر عمران خان کو اسلام کا علمبردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔اور تحریک انصاف سمیت کئی نیوٹرل لوگ جو اس مسئلے کی پیچیدگی سے ناواقف ہیں وہ اس معاملے میں عمران خان کا ساتھ دینے کی کوشش کریں گے اور بھرپور حمایت کریں گے۔
یہاں ایک بات توجہ طلب ہے
کہ بحیثیتِ مسلمان ہماری پارٹیاں سب کچھ سرکارِ دو عالم ﷺ کے نام پر قربان۔
اب ایک مسئلہ ذہن نشین کر لیجئے کہ آپکا ،میرا ہم سب کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم کبھی بھی ایسے معاملات میں کسی حکومت یا شخصیت کا ساتھ نہیں دیں گے اور میں اَللّٰهﷻ کی ذات پر پورے بھروسے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ملک کے نوجوان ان شاءَ اللّٰهﷻ اس قانون کی ہمیشہ حفاظت کرتے رہیں گے چاہے وہ جس بھی سیاسی جماعت میں رہیں۔
اہم ترین معلومات
اوپر بیان کئے گئے واقعات کو بہانہ بنا کر اس قانون کو غیر فعال کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چونکہ اس قانون کو آئین سے ختم کرنا ممکن نہیں تو اس لئے اس کو غیر فعال کروانے کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان میں اہم ترین یہ ہے کہ جو بھی ناموسِ رسالت ﷺ میں گستاخی کا مرتکب ہوگا اسکی سزا موت ہوگی لیکن اگر گستاخی ثابت نہ ہوئی تو پرچہ کروانے والے کو پھانسی دے دی جائے گی
اس طرح کے ملتے جلتے مضمون پر قانون میں تبدیلی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اور یہ تبدیلی اس قانون کو غیر فعال کر دے گی کیونکہ ناموسِ رسالت ﷺ کے خلاف پورا یورپ اکٹھا ہو جاتا ہے اور صراحتاً گستاخی کرنے والوں کو آزاد کروا دیا جاتا ہے۔اس لئے پھر تو کوئی کسی پر گستاخی کرنے کے باوجود پرچہ نہیں کروا سکے گا۔
خدارا اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے اور اس مسئلے کو بغیر کسی سیاست کے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے ڈیل کریں۔
اَللّٰهﷻ آپکا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
میرا سب کچھ آپ پر قرباں یا رسول اَللّٰه ﷺ
تحریر؛
راجہ اظہر حیات عطاری