محافظِ ناموسِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

Article by Jawad Hassan
محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے وجہ تخلیقِ کائنات سرورِ دو عالم محبوبِ خدا سیدالانبیاء حضرت محمد ﷺ تمام انسانیت کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپ ﷺ بھیجنے والے رب کی شان بن کر آئے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے۔ آپﷺ کی عزت، عظمت اور محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب قرآنِ مجید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ اللہ تعالٰی کے محبوب ترین نبی ہیں۔ اللہ کے گستاخوں کو جواب دینا سُنتِ رسولﷺ ہے اور آپ ﷺ کے گستاخوں کا مُنہ توڑنا سُنتِ الہیہ ہے۔ اللہ پاک نے کلامِ الہی میں تمام مجرِموں کی سزائیں بیان کی ہیں جن میں سب سے زیادہ سخت اور اندو ہناک سزا گستاخِ رسولﷺ کی ہے۔ اس کے متعلق قرآنِ مجید نے کبھی فرمایا، زَنِیْمٍ یعنی ’’بدکاری کی پیداوار‘‘ اور کبھی فرمایا، اَبْتَرُ۠ یعنی خیر سے کٹا ہوا اور محروم اور کبھی فرمایا تَبَّتْ یَدَا، تباہ ہو جائیں اسکے دونوں ہاتھ اور کبھی فرمایا۔’’لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ‘‘ اللّٰہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا۔ قرآنِ پاک کو پڑھنے اور مفسرین کی تفسیروں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلی جس ذات نے حضرت محمد ﷺ کی ناموس پر پہرہ دیا وہ ذاتِ اقدس اللہ تعالٰی ہے۔ قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴ میں اللہ نے فرمایا ترجمہ: “اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضورﷺ ہم پر نظر رکھیں اور پہلے سے ہی بغور سُنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے” تفسیر صراط الجنان میں اِس آیت کا شانِ نزُول کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ جب آپﷺ صحابہ کرام کو کچھ تعلیم و تلقین فرما رہے ہوتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے کہ ”راعنا یا رسول اللہ“ اس کے معنی یہ تھے کے یا رسول اللہﷺ ہمارے حال کی رعایت فرمائیں یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھنے کا موقع دیجیے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اِسی بُری نیت سے کہنا شروع کر دیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک دن کلمہ اُن (یہودیوں) کی زبان سے سُن لیا اور فرمایا: اے دشمنانِ خدا! تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سُنا تو اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ تو یہودیوں نے کہا ہم پر تو آپ برہم ہو رہے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں۔ اِس پر آپ رنجیدہ ہو کر حضورِ پاکﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴ نازل ہو گئی جس میں رَاعِنَا کہنے سے منع فرما دیا گیا اور اُس کے متبادل “اُنظُرنا” کہنے کا حکم ہوا۔ اِس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہ الصلواۃ والسلام کی تعظیم و توقیر اور اُن کی جناب میں ادب کا لِحاظ کرنا فرض ہے۔ جس کلمہ میں ترکِ ادب کا تھوڑا سا بھی خدشہ ہو اُسے ادا کرنا ممنوع ہے۔ بقولِ اقبالؔ: خاموش اے دل! بھری محفل میں چِلّانا نہیں اچھّا ادب پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھا اور برا اور لفظ بولنے میں اِس بُرے معنی کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی تعظیم و توقیر میں اچھے الفاظ کا چُناؤ کرنا نہ صرف اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو سیکھایا بلکہ خود میرے خدا نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس و بابرکت کے بارے میں اعلٰی الفاظ کا استعمال کر کے بتا دیا کہ سب شانیں میرے مصطفٰیﷺ کی ہیں۔ اِسی بات پہ امام العاشقین امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے قلم نے جنبش کی اور لکھا۔ سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیﷺ سب سے بالا و والا ہمارا نبیﷺ اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبیﷺ دونوں عالم کا دلہا ہمارا نبی ﷺ خَلق سے اولیا، اولیا سے رُسُل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
تحریر: جواد حسن
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ