محافظ ناموسِ رسالت ﷺ – غازی عامر عبدالرحمن چیمہ شہید

Article by Bint E Hassan
محافظ بنا نہیں جاتا محافظ بنایا جاتا ہے، چُنا جاتا ہے، جیسے کسی کو اپنے لیے سیکورٹی رکھنی ہو تو وہ چُن چُن کر اپنے لیے بندے رکھتا ہے؛ ایسے ہی ناموسِ رسالت ﷺ کے محافظ چُنے جاتے ہیں وہ لوگ جن پر اللہ اور اس کے پیارے حبیب محمد مصطفیﷺ کی خاص نظرِ کرم ہو ۔
محافظ ناموسِ رسالت ﷺ “عامر عبدالرحمن چیمہ شہید ایک نظریہ ،ایک حقیقت کا نام ہے۔” ایسی اٹل حقیقت جس سے دنیا لاکھ نظریں چرائے، وہ عیاں ہو کر رہتی ہے۔
عامر چیمہ 4دسمبر 1977 کی ایک صبح اپنے ننھیال حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام عامر جب کہ والد نے عبد الرحمٰن تجویزکیا۔ چنانچہ دونوں ناموں کو ملا کر عامر عبدالرحمٰن رکھ دیا گیا۔ لیکن مختصر نام عامر مشہور ہوا۔ عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کی تین بہنیں ہیں۔ آپ نے 1993ء میں جامع ہائی سکول ڈھوک کشمیریاں راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ 1996ء میں ایف جی سر سید کالج مال روڈ راولپنڈی سے ایف ایس سی کی۔ نیشنل کالج آف انجینرٔنگ فیصل آباد سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینرٔنگ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں لیکچرار رہے۔رائے ونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل اور الکریم ٹیکسٹائل ملز کراچی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ نومبر 2004ء میں جرمنی روانہ ہوئے اور جرمنی کے شہر مونس گلاڈباخ میں واقع اوخشو لےفیڈر یائن یوینورسٹی میں ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوزنگ منیجمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ تین سمسٹرز مکمل کر لیے تھے۔ اب ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھااور جولائی 2006 ء میں تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹنا تھا۔ مذہبی اور تاریخی کتب مطالعہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب وہ یورپ کے توبہ شکن اور کافر ادا ماحول میں گئے تو تب بھی اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اور نہ ہی اپنے کردار پر کوئی حرف آنے دیا۔ 30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے اخبار جیلنز پوسٹن نے حضور نبی کریم ﷺ
کے بارے میں نعوذ باللہ 12 نہایت توہین آمیز اور نازیبا کارٹون شائع کیے پھر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت جنوری 2006ء میں 22 ممالک کے 75 اخبارات و رسائل نے ان کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا، یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے۔
،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے؛ جسے شاتم رسول ﷺ، غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی انوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان کارٹونوں کی اشاعت سے زخمی دل ہو کر جرمنی میں مقیم اس پاکستانی طالب علم عامر عبدالرحمن چیمہ نے متعلقہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین نے انہیں سخت بےقرار اور بے چین کر دیا تھا۔ ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی۔
وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے۔ عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا۔ اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا۔ عامر چیمہ نے مزید وار کرنے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ غازی عامر عبدالرحمن چیمہ کے چیف ایڈیٹر ہینرک بروڈر پر قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں وہ نہایت عبرتناک حالت میں جہنم واصل ہو گیا۔
غازی عامر عبدالرحمن چیمہ گرفتار ہوئے۔ جرمن پولیس اور مختلف حکومتی ایجنسیوں نے برلن جیل میں 44 دن تک عامر چیمہ کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر تشدد کیا۔ ایک موقع پرتفتیشی افسر نے عامر چیمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کرے کہ وہ ذہنی مریض ہے، دماغی طور پر تندرست نہیں ہے اور اس نے یہ قدم محض جذبات میں آ کر اٹھایا ہے۔ مزید براں یہ کہ اس فعل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میں اپنے کیے پر بے حد شرمندہ اور نادم ہوں۔ شہید غازی عامر چیمہ نے نہایت تحمل سے تفتیشی آفیسر کی تمام باتیں سنیں اور پھر اچانک شیر کی طرح دھاڑا اور اس آفیسر کے منہ پر تھوک دیا اور روتے ہوئے کہا۔ میں نے جو کچھ کیا ہے، وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق کیا ہے۔ مجھے اپنے فعل پر بے حد فخر ہے۔ یہ میری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ایک تو کیا، ہزاروں جانیں بھی قربان۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اگر کسی بدبخت نے میرے آقا رسولِﷺ کی شان اقدس میں کوئی توہین کی تو میں اسے بھی کیفر کردار تک پہنچاؤں گا۔ بحیثیت مسلمان یہ میرا فرض ہےاور میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتا رہوں گا۔ غازی عامر چیمہ کی اس بے باک اور بے خوف جسارت کے بعد جیل حکام آپے سے باہر ہو گئے۔
اور انھوں نے عامر چیمہ پر بہیمانہ تشدد کی انتہا کر دی، ان کے پیچھے سے ہاتھ باندھے گئے۔ پلاس کے ساتھ ان کے ناخن کھینچے گئے، پاؤں کے تلوؤں پر بید مارے گئے، گرم استری سے ان کا جسم داغا گیا، جسم کے نازک حصوں پر بے تحاشا ٹھڈے مارے گئے، ڈرل مشین کے ذریعے ان کے گھٹنوں میں سوراخ کیے گئے۔ غازی عامر چیمہ نہایت اذیت کی حالت میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے۔ اسی دوران میں ان کی سانسیں اکھڑ گئیں اور وہ بے ہوش ہو گئے پھر ان بدبختوں نے آپ کی شہ رگ کاٹ دی۔
محافظ ناموسِ رسالت ﷺ کی شہادت کے یہ منظر پڑھ کر اور انھیں قلمبند کرتے ہوئے میری روح تڑپتی رہی، اور آنکھیں نم ہی رہیں۔ یہ تکلیف دہ مناظر غلامانِ رسول ﷺ کے دلوں اور ذہنوں پر آج بھی تازہ ہیں۔ اے جوانانِ مسلم! اٹھو کچھ تو ہوش سے کام لو،اپنے دین کا پرچم سنبھالو اور ہر سُو دنیا کے کونے کونے میں حضور ﷺ کی عزت و ناموس کی بات کرو ۔
کم و بیش چودہ سو سال بعد بھی رسول ﷺ کے جانثار آج بھی سر بکف جان ہتھیلی پر سجائے غلامی کا قرض چکانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، جب بات آ جائے ناموسِ رسالت ﷺ پر تو پھر ایسے ہی غازی عامر چیمہ پیدا ہوتے ہیں جو شاتم رسول ﷺ کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا کر خود منزلِ ارفع تک پہنچ جاتے ہیں ۔
مِرے خاک وخُوں سے تُو نے یہ جہاں کِیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تاب جاوِدانہ
اے جوانانِ مسلم !! آؤ کہ اپنے اسلاف کی قربانیوں سے دلوں کو شاد کرو،
عبدالرحمن چیمہ کے استادِ محترم جناب محمد یحییٰ علوی صاحب جو کہ گورنمنٹ جامعہ سکول فار بوائز راولپنڈی میں استاد ہیں اور اسلامیات، عربی کی تدریس کرچکے ہیں، فرماتے ہیں’’الحمدللہ میرا معمول ہے کہ ہر شبِ جمعہ کو کم از کم 500 مرتبہ درود شریف پڑھ کر سوتا ہوں۔ 4 مئی کو نمازِ عشا ادا کرنے کے بعد جب میں مسجد سے نکلا تو ایک دوست نے بتایا کہ پروفیسر نذیر چیمہ صاحب کا بیٹا عامر جو گستاخ رسول پر حملے کے جرم میں جرمنی میں گرفتار تھا، شہید کر دیا گیا۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا اور عامر کی یادیں دل میں بسائے سو گیا۔ صبح سے کچھ دیر قبل میں نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑے میدان میں بہت زیادہ قمقمے جگمگا رہے ہیں اور ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ اس روشن میدان میں ایک بلند اسٹیج سجا ہوا ہے اور اس پر حضور ﷺ جلوہ افروز ہیں۔ آپ کے رخِ زیبا سے نور ہی نور پھوٹ رہا ہے۔ آپﷺ کے ساتھ خلفائے راشدین بھی موجود ہیں۔ اسی اثناء میں میدان کی دوسری طرف سے سفید لباس میں ملبوس عامر شہید آتے ہیں اور تیز قدموں کے ساتھ حضور ﷺ کی طرف بڑھتے ہیں۔ آقا نامدار ﷺ عامر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوشی اور مسرت سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آغوش مبارک وا کرکے عامر کو پکارتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’مرحبا! اے میرے بیٹے۔ پھر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) یہ دیکھو کون آیا ہے۔ میں عامر کو تمہارے سپرد کر رہا ہوں، تم اس کا خیال رکھنا۔‘‘
بس اسی لمحے قریبی مسجد سے اذانِ فجر بلند ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اے کاش، ہر مسلمان گھرانے سے ایک ایک عامر اٹھے جو دنیا کو یہ بتا دے کہ ہم اپنے آقا مولا احمد مجتبی ﷺ کے تحفظ کے لیے زندہ ہیں اور جب تک ہمارے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے، ہم اللہ کے آخری رسول ﷺ کی ناموس مبارک کا تحفظ کرتے رہیں گے۔
اے مسلم نوجوان! ناموس محمد مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے اس پر جان و مال، تن، من، دھن سب قربان کیا جائے. ان دنوں مہر و وفا کے نام پر گردنیں کٹائی جائیں کہ شاید حقِ غلامی رسول ﷺ ادا ہو جائے ۔
رسول اللہ ﷺ کے نام پر مر مٹنے کا جذبہ ہی الگ ہے سب سے الگ سب سے منفرد حیات ہے۔
بتلا دو گستاخ نبی کو کہ غیرتِ مسلم زندہ ہے ؛ اُن ﷺ کی ذاتِ اقدس پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔
اللہ پاک شہید محافظ ناموسِ رسالت ﷺ عامر چیمہ کی قبر پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں عطا فرمائے۔
آمین
تحریر: بنت حسن