سیدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عَنْہ
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضورِ اکرمﷺ سے مل جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۶ ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد پچیس سال کی عمر میں دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضیَ اللہُ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو رسول اللہﷺ نے مرحبا فرمایا۔
(طبقاتِ ابن سعد،ج ۷،ص۲۸۵)
شجرہ نسب
معاویہ بن سفیان بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف اس طرح آپ کا شجرہ نسب پانچوں پشت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے۔ حضرت ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس بن عبد مناف ۔
حُلْیۂ مبارکہ
حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے، چہرہ نہایت وجیہ اور رُعْب و دبدبے والا تھا، زرد خِضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے۔
(تاریخ الاسلام للذھبی،ج ۴،ص۳۰۸)
فضائل و مناقب
آپ رضیَ اللہُ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں۔ آپ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔
(معجم کبیر،ج ۵،ص۱۰۸، حدیث: ۴۷۴۸)
دعائے مصطَفٰے کئی مرتبہ مصطفٰے کریمﷺ نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم وحِلم کی یوں دعا دی: اے اللہ! معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے۔
(تاریخ کبیر،ج ۸،ص۶۸،حدیث:۲۶۲۴)
کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا: یااللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لئے ذریعۂ ہدایت بنا۔
(ترمذی،ج ۵،ص۴۵۵،حدیث:۳۸۶۸)
عبد الرحمن بن ابی عمیرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے سیدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے لیے دعا فرمائی: اے اللہ معاویہ کو ہادی، مہدی (ہدایت یافتہ) اور دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا
(سنن ترمذی،کتاب المناقب، مناقب معاویہ بن ابی سفیان، ص۸۶۹)
اس حدیث کی شرح میں علامہ ملا علی قاری لکھتے ہیں
یقیناً رسول اللہﷺ کی دعا مستجاب ہے تو وہ جس کی یہ حالت ہو(یعنی جس کے حق میں رسول اللہﷺ دعا فرمائیں، وہ یقیناً مقبول ہے) اسکے بارے میں کیسے شک کیا جا سکتا ہے۔
(مرات المفاتیح، کتاب المناقب الفضائل، ص۶۱۲)
سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے لیے دعا فرمائی
اے اللہ ! معاویہ کو قرآن اور حساب کا علم عطا فرما
(المعجم الکبیر)
سیدنا مسلمہ بن مخلد سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے حضرت امیر معاویہ کے لیے اس طرح دعا فرمائی
اے اللہ ! معاویہ کو شہروں کی حکومت عطا فرما اور اسے برے عذاب سے بچا۔
(المرجع السابق)
صحیح بخاری ‘باب ماقیل فی قتال الروم’ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد مروی ہے۔
میری اُمت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا، انہوں نے(جنت کو اپنے لئے) واجب کر دیا ہے۔
اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ اس اول لشکر کے امیر سیدنا امیر معاویہ تھے اس حدیث کے بارے میں حافظ بدارالدین عینی الحنفی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ کی منقبت ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سمندر میں جہاد کیا۔
رسول اللہﷺ نےکبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: معاویہ! اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا۔
(مسند احمد،ج ۶،ص۳۲، حدیث: ۱۶۹۳۱)
سیدنا امیر معاویہ اور اقوال علماء
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ مشہور محدث حضرت عبداللہ بن مبارک سے سوال ہوا کہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان اور حضرت عمر بن عبد العزیز میں سے افضل کون ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا، وہ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کئی گنا بہتر ہے۔
(مرقات المفاتیح، شرح مقدمۃ المشکاۃ،۸۳/۱)
امام اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر تم معاویہ کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ واقعی ہدایت یافتہ ہے۔
(المعجم الکبیر،باب المیم،من اسمہ معاویہ۶۹۱ ،۳۰۸/۱۹)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اہلسنت یہ عقیدہ ہے
تمام صحابہ کرام کو پاک صاف سمجھنا، انکی ایسی تعریف و توصیف کرنی چاہیئے جیسے اللہ اور اسکے رسول اللہﷺ نے بیان کی ہے، جو کچھ حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی المرتضیٰ کے درمیان ہوا، وہ سب اجتہادی خطاء پر مبنی تھا۔
(احیاء العلوم الدین،کتاب قواعد العقائد،فصل۳)
قرآن مبارکہ، احادیث شریف اور علماء کے اقوال کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے اللہ و رسولﷺ نے تمام صحابہ کرام کو بڑی عزت اور بزرگی عطا فرمائی انہیں ساری امت سے برتر ٹھہرایا۔ ملت اسلامیہ کی عظمت اور اسلام کی شوکت انہیں کے ذریعے بلند و بالا ہوئی۔ صحابہ ہی وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں رسول اللہﷺ کی صحبت اختیار کی اور فیوض و برکات حاصل کئے۔ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ جو کاتب وحی ہیں ان کے بغض و عناد میں مبتلا کوئی شخص دیگر صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کی محبت کا دعویٰ کرے، تو اس دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کسی ایک صحابی سے دشمنی تمام صحابہ کرام سے دشمنی ہے، کسی ایک صحابہ کا انکار سارے صحابہ کا انکار ہے۔
(مصنف مفتی اسلم رضا تحسینی، کتاب مختصر سیرت امیر معاویہ، صفحہ۳۷۶)
اوصافِ مبارکہ
حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔ بُردباری ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہ سے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو۔
(حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، ص:22)
اصلاحِ نفس کا جذبہ آپ رضیَ اللہُ عنہ اپنے کام کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لئے نصیحت ہو۔ (ترمذی،ج۴،ص۱۸۶، حدیث: ۲۴۲۲مختصراً)
اہلبیت سے پیار و محبت
فرمانِ مولیٰ مشکل کُشا جنگِ صِفِّین کے بعد امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے بارے میں فرمایا
معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل)۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،ج ۸،ص۷۲۴، رقم: ۱۸)
شیرِ خدا سے مَحبّت
حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔
(حلیۃ الاولیاء،ج۱،ص۱۲۶مختصراً)
اہلِ بیت کی خدمت حضرت سیّدُنا امام حُسین رضیَ اللہُ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔
(کشف المحجوب، ص۷۷ماخوذاً)
محبت رسول اللہﷺ
کعبہ میں نماز
جب آپ رضیَ اللہُ عنہ مکۂ مُکرّمہ میں داخل ہوئے تو حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضیَ اللہُ عنہُما سے سوال کیا: نبیِّ کریمﷺ نے کعبہ میں کس جگہ نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: دیوار سے دو یا تین ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لیجئے۔
(اخبارِ مکۃ للازرقی،ج۱،ص۳۷۸)
موئے مبارک کا دھووَن پیا
ایک بار آپ رضیَ اللہُ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہَا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس رحمتِ عالَم ﷺ کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں، حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ نے حصولِ بَرَکت کے لئے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا۔
(تاریخ ابنِ عساکر،ج ۵۹،ص۱۵۳)
وصالِ مبارک
آپ رضیَ اللہُ عنہ کے پاس حضور سیّد عالم ﷺ کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف، ردائے اقدس، قمیصِ اطہر، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے حضورِ انورﷺ کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا۔
(تاریخ ابن عساکر،ج۵۹،ص۲۲۹تا۲۳۱)
کاتبِ وحی، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ نے ۲۲ رجب المرجب ۶۰ھ میں ۷۸ سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا۔
(معجم کبیر،ج ۱۹،ص۳۰۵، رقم: ۶۷۹، استیعاب،ج ۳،ص۴۷۲)
حضرت سیّدُنا ضَحّاک بن قَیس رضیَ اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔
(الثقات لابن حبان،ج۱،ص۴۳۶)
بدگوئی سے توبہ
شمسُ الائمہ امام سَرْخَسی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات:۴۸۳ھ) نے مبسوط میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ پہلے پہل امامِ جلیل محمد بن فضل الکماری رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات: ۳۸۱ھ) حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے خلاف بدگوئی اور عیب جوئی میں مبتلا ہوگئے تھے پھر ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے منہ سے لمبے لمبے بال نکل کر پاؤں تک لٹک گئے ہیں اور وہ ان بالوں کو اپنے پاؤں میں روندتے چلے جارہے ہیں جبکہ زبان سے خون جاری ہے جس سے ان کو سخت تکلیف اور اذیت ہورہی ہے، بیدار ہونے کے بعد انہوں نے تعبیر بتانے والے سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا: آپ کِبار صحابہ علیہمُ الرِّضوان میں سے کسی صحابی کی بدگوئی اور ان پر طعن کرتے ہیں، اس فعل سے بچئے اور اجتناب کیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس سے فوراً تائب ہوگئے
(المبسوط،جز:۲۴،ج ۱۲،ص۵۷)
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی
ماہنامہ فیضان مدینہ دعوت اسلامی کا مضمون کاپی کر کے اپنے نام چھاپ دیا،کمال ہے۔
برائے مہربانی حوالہ دیں کس جلد اور کس صفحہ پر یہ مضمون آیا ہے۔