تم مسلمان ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے
Article by Zain Rizvi
کسی بھی قسم کی سیاست یا سیاسی پارٹی سے بالاتر ہو کے سوچیں کہ کل پیش آنے والا واقعہ کس قدر جہالت انگیز ہے. اس قدر جہالت، بے ادبی، انتہا پسندی جس کی مثال شاید کہیں نہ ملے۔
مکہ و مدینہ کا احترام نہیں کیا ، روضہ رسول ﷺ کا بھی احترام نہیں کیا ، حرم شریف کا احترام نہ کیا، کیسے جہالت سے گرے لوگ ہیں
علامہ اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ؛
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
یہ ہوتے کون ہیں مدینے کے تاجدار، سرکار دوعالم ﷺ کے مقدس اور مؤدب در پر اونچی آواز میں پاکستان کے دو ٹکے کی سیاست اور سیاسی وفاداریاں نبھانے والے، وہاں پہ سیاسی عدالتیں لگانے والے
یہ اپنے مفاد پروردہ، سیاسی شعور میں اتنا بے باک اور بے دھڑک ہو گئے کہ انہیں ادب اور ادبی قرینوں تک کا بھی خیال نہیں رہا. ساری دھرتی پڑی ہے تمہارے سیاسی شعلوں کے لیے۔
خدا تعالیٰ جب قرآن پاک میں فرما رہا ہے؛
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی (ﷺ) کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
سورہ الحجرات ایت نمبر 2
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسجد ِنَبوی میں دو شخصوں کی بلند آواز سنی تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا؛
’’کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا: تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو
دونوں نے عرض کی: ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔
ارشاد فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں (یہاں آواز بلند کرنے کی وجہ سے) تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنے والے دربارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آداب سے خوب واقف ہیں)۔
(تفسیر ابن کثیر)
جس دربار پر فرشتے، صحابہ کرام اور وقت کے غوث ، قطب،اور ابدال بھی ادب کے باعث گفتگو کے بجائے محض سرگوشیوں پر اکتفا کرتے ہوں، اس مقام پر تم اپنے سیاسی غلاظتوں کا نوحہ گھیسٹ رہے ہو!
تم مسلمان ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے
اور حضور پاک ﷺ کے ادب کا یہ تقاضا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰه عنہ فرماتے ہیں؛
”میں نے دس سال حضور اکرم سرکارِ دوعالم ﷺ کی خدمت کی ہے ( ذرا سوچیں ان دس سالوں میں کتنے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھم آئے ہوں گے، کتنی بار حضور ﷺ کے گھر دستک دی گئی ہو گی)
انس بن مالک رضی اللّٰه عنہ فرماتے ہیں کہ
میں نے، حضرت ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے لے کر وحشی بن حرب تک جو کوئی بھی در رسول ﷺ تک آیا اس نے اپنے ہتھیلی سے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا بلکہ اپنے ناخنوں سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
علامہ اقبال ادب کے بارے میں لکھتے ہے کہ؛
ادب گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
ترجمہ؛
آسمان کے نیچے بارگاہِ رسالت ﷺ وہ مقام ہے جو عرش سے بھی زیادہ نزدیک یے۔
حضرت جنید بغدادی علیہ رحمہ اور حضرتِ بایزید بسطامی علیہ رحمہ جیسے بڑے بڑے اولیاء کرام جب اس بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ادب سے سانس تک روک کر حاضر ہوتے ہیں کہ کہی تیز تیز سانسوں سے بارگاہِ رسالت کی بے ادبی نا ہو جائے
ادب کا تقاضا تو یہ ہے۔
اور آج یہ کون سا ادب ہو رہا؟ ادب ہی تو وہ چیز ہے جو انسان کو فرش سے عرش تک لے جاتی ہے۔۔
تحریر: زین رضوی