امام مالک رحمۃ اللہ علیہ

Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
مالک بن انس بن مالک بن عمر (۹۳ھ – ۱۷۹ھ) امام مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی ہیں اور ابوعامر اصبحی دادا ان کے صحابی جلیل القدر ہیں۔ سوائے جنگ بدر کے اور سب غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ مسلمانوں میں “امام مالک” اور “شیخ الاسلام” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علما میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے، نے ایک بار کہا کہ “علما میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں”۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
نام
مالک، کنیت ابو عبداللہ، لقب امام دارالهجرة اور باپ کا نام انس تھا۔
سلسلہ نسب یہ ہے
مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث بن غیلان بن حشد بن عمرو بن الحارث
ولادت، تعلیم
آپ کی تاریخ ولادت میں 90ھ سے 97ھ تک کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ذہبی نے یحیی بن کثیرکے قول کو اصح قراردیاہے جس کے مطابق آپ کی ولادت 93ھ میں ہوئی ہے ،خلاف معمول شکم مادرمیں تین سال رہے۔ بعض نے دوسال بیان کیا ہے ۔جائے مولد مدینہ الرسول ہے ۔آپ نے جب آنکھ کھولی تومدینہ منورہ میں ابن شہاب زہری یحیی بن سعید انصاری ، زید بن اسلم ،ربیعہ اورابوالزناد وغیرہم تابعین اورتبع تابعین کاآفتاب علم وفضل نصف النہار پرچمک رہاتھا ۔
آپ نے قرآن مجید کی قرأت وسند مدینہ منورہ کے امام القراء نافع بن عبدالرحمن متوفی ۱۶۹ھ سے حاصل کی ۔دیگر علوم کی خواہش کے جذبات غیرمعمولی طور پر ودیعت تھے ، زمانہ طالب علمی میں آپ کے پاس سرمایہ کچھ نہ تھا ، مکان کی چھت توڑکر اس کی کڑیوں کو فروخت کرکے بھی کتب وغیرہ خریدی تھیں ۔ اسکے بعد دولت کا دروازہ کھل گیا،حافظہ نہایت اعلی درجہ کا تھا ،فرماتے تھے کہ جس چیز کو میں نے محفوظ کرلیا اسکو پھر کبھی نہیں بھولا ۔
اساتذہ
آپکے اساتذہ میں زیادہ تر مدینہ کے بزرگان دین شامل ہیں
“امام زرقانی فرماتےہیں کہ آپ نے نوسو سے زیادہ مشائخ سے علم حاصل کیا”
چند حضرات کے اسماء یہ ہیں
زیدبن اسلم ،نافع مولی ابن عمر، صالح بن کیسان ،عبداللہ بن دینار ،یحیی بن سعید ، ہشام بن عروہ ،ایوب السنحتیانی ،عبداللہ بن ابی بکر بن حزم ،جعفر صادق بن محمدباقر،حمیدبن قیس مکی ،سہل بن ابی صالح ،ابوالزبیر مکی ۔ ابوالزناد ،ابو حازم ،عامر بن عبداللہ بن العوام، ابن شہاب زہری،عبد الرحمٰن اوزاعی، ابراہیم بن ابی عبلہ، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن قاسم، ربیعہ بن فروخ، وغیرہ
درس حدیث
درس حدیث کا نہایت اہتمام فرماتے ، غسل کرکے عمدہ اور صاف لباس زیب تن کرتے پھر خوشبو لگاکر مسند درس پر بیٹھ جاتے اور اسی طرح بیٹھے رہتے تھے ، ایک دفعہ دوران درس بچھو انہیں پیہم ڈنگ لگاتا رہا مگر اس پیکرعشق ومحبت کے جسم میں کوئی اضطراب نہیں آیا ، پورے انہماک واستغراق کے ساتھ اپنے محبوب کی دلکش روایات اور دلنشیں احادیث بیان کرتے رہے، جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اورلوبان ڈالاجاتارہتا۔
مؤطا امام مالک
آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن مؤطا آپکی مشہور ترین کتاب جو کتب خانہ اسلام کی فقہی ترتیب پر دوسری کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ اس کی تالیف وترتیب مدینہ طیبہ ہی میں ہوئی ، کیونکہ آپ کا قیام ہمیشہ مدینہ منورہ ہی میں رہا ، آپ نے حج بھی صرف ایک مرتبہ ہی کیا باقی پوری حیات مبارکہ مدینہ پاک ہی میں گذاردی۔
امام شافعی نے اس کتاب کو دیکھ کر فرمایا تھا
کہ کتاب اللہ کے بعدروئے زمین پر اس سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
امام ابو زرعہ رازی فن جرح وتعدیل کے امام فرماتے ہیں
اگر کوئی شخص قسم کھالے کہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں تووہ حانث نہیں ہوگا۔
امام مالک نے ایک لاکھ احادیث میں سے مؤطا کا انتخاب کیا ، پہلے اس میں دس ہزار احادیث جمع کی تھیں ، پھر مسلسل غور کرتے رہے یہاں تک کہ اس میں چھ سو احادیث باقی رہ گئیں ، بعدہ مراسیل وموقوف اور اقوال تابعین کا اضافہ ہے ۔ یعنی کل روایات کی تعداد ایک ہزار سات سوبیس ہے۔
لفظ موطا ’’توطیہ‘‘ کا اسم مفعول ہے جسکے معنی ہیں ، روندا ہوا ، تیار کیا ہوا ، نرم وسہل بنایا ہوا ۔ یہاں یہ سب معانی بطور استعارہ مراد لئے ہیں۔
امام مالک خود فرماتے ہیں
میں نے اس کتاب کو لکھ کر فقہاء مدینہ میں ستر حضرات کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے مجھ سے اتفاق کیا یعنی انظار دقیقہ سے روندا، لہذا میں نے اسکا نام مؤطا رکھا ۔ دوسرے آئمہ نے وجہ تسمیہ میں یہ بھی فرمایاہے کہ امام مالک نے اس کتاب کومرتب کرکے لوگوں کیلئے سہل اور آسان بنا دیا ہے اس لئے اسکو مؤطا امام مالک کہتے ہیں۔
مؤطا امام مالک کے تیس سے زیادہ نسخے ہیں ، بستان المحدثین میں سولہ کا ذکر بالتفصیل ہے لیکن اس وقت امت کے ہاتھوں میں دونسخے موجودہیں، ایک یحیی بن یحیی مصمودی کا جومؤطا امام مالک سے مشہور ہے اوردوسرامام محمد بن حسن کا جومؤطاامام محمد سے شہرت یافتہ اورعام طور پر داخل نصاب ہے۔
(البدایۃ والنہایہ۔ تذکرۃ المحدثین)
علم وفضل
ابومصعب زہری فرماتے تھے
امام مالک ثقہ ،مامون ،ثبت ،عالم ،فقیہ ،حجت وورع ہیں۔
یحیی بن معین اوریحیی بن سعید القطان نے فرمایا
آپ امیرالمومنین فی الحدیث ہیں۔
عبدالرحمن بن مہدی کاقول ہے
روئے زمین پر امام مالک سے بڑھکر حدیث نبوی کا کوئی امانت دار نہیں ۔ سفیان ثوری امام حدیث ہیں امام سنت نہیں اور اوزاعی امام سنت ہیں امام حدیث نہیں اور امام مالک دونوں کے جامع۔
امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں
میں نے امام مالک سے زیادہ جلد اور صحیح جواب دینے والا اوراچھی پرکھ والا نہیں دیکھا۔
امام شافعی فرماتے ہیں
تابعین کے بعد امام مالک مخلوق خداکی حجت تھے اور علم تین آدمیوں میں دائر ہے۔
مالک بن انس ، سفیان بن عیینہ ، لیث بن سعد۔
رسولﷺ نے فرمایا
یوشک ان یضرب الناس اکباد الابل یطلبون العلم فلایجدون عالما اعلم من عالم المدینۃ۔
قریب ہے کہ لوگ اونٹوں پر سوار ہوکر آئیںگے اورعالم مدینہ سے بڑھکر کوئی عالم نہ پا ئیں گے۔
امام عبدالرزاق اورامام سفیان بن عیینہ نے فرمایا
اس حدیث کے مصداق امام مالک ہیں۔
عشق رسولﷺ
آپکی شخصیت عشق رسالت سے معمورتھی ، مدینہ کے ذرہ ذرہ سے انہیں پیار تھا ، اس مقدس شہر کی سرزمین پر کبھی کسی سواری پر نہ بیٹھے اس خیال سے کہ کبھی اس جگہ حضورپیادہ چلے ہوں۔
مقامِ عزیمت و استقامت
امام مالک ان اربابِ صدق و صفا میں سے تھے جنہیں کوئی طاقت حق گوئی سے نہیں روک سکتی تھی۔ منصور عباسی کے زمانے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا کہ جبری طلاق (طلاقِ مکرہ) یعنی ليس على مستكرة طلاق واقع نہیں ہوتی۔ گورنرِ مدینہ کو اندیشہ دامن گیر ہوا کہ اس فتویٰ کی زد ابو جعفر منصور کی بیعت پر پڑے گی جس نے جبرا اپنی رعیت سے بیعت لی تھی۔ اس نے امام ممدوح کو دارُالامارات میں طلب کیا اور آپ کی رفعت شان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ستر کوڑے لگوائے، مشکیں اس زور سے کس دی گئیں کہ ہاتھ بازو سے جدا ہو گیا، لیکن اس تکلیف و کرب کے عالم میں آپ اونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو گئے (جس پر آپ کو تذلیل و تشہیر کے لیے سوار کرایا گیا تھا) اور بلند آواز سے پکارتے جاتے تھے کہ
“جو مجھ کو جانتا ہے، وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ مالک بن انس ہوں، فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاقِ جبری (مکرہ) درست نہیں”
اس واقعہ سے ان کی عزت و عظمت گھٹنے کی بجائے بڑھ گئی۔ تازیانوں کی ضربات سے شان کا رعب، داب اور جلال و جمال دو چند ہو گیا۔ امام ممدوح نے بعد میں گورنر کے معافی طلب کرنے پر فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے معاف کر دیا۔
وصال
یحیی بن یحیی مصمودی بیان کرتے ہیں کہ جب امام مالک کا مرض وصال طویل ہوا اور وقت آخر آ پہنچا تومدینہ منورہ اور دوسرے شہروں سے علماء وفضلاء آپکے مکان میں جمع ہوگئے تاکہ امام مالک کی آخری ملاقات سے فیض یاب ہوں ۔ میں باربار امام کے پا س جاتا اور سلام عرض کرتا تھا کہ اس آخری وقت میں امام کی نظر مجھ پر پڑجائے اور وہ نظر میری سعادت اخروی کا سبب بن جائے، میں اسی کیفیت میں تھا کہ امام نے آنکھیں کھولیں اورہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا
اللہ تعالیٰ کا شکر جس نے ہم کو کبھی ہنسایا اور کبھی رلایا ، اسکے حکم سے زندہ رہے اوراسی کے حکم سے جان دیتے ہیں ۔ اسکے بعد فرمایا: موت آگئی ، خدائے تعالیٰ سے ملاقات کا وقت قریب ہے۔
حاضرین نے عرض کیا : اس وقت آپکے باطن کا کیا حال ہے؟ فرمایا: میں اس وقت اولیاء اللہ کی مجلس کی وجہ سے بہت خوش ہوں ، کیونکہ میں اہل علم کو اولیاء اللہ شمار کرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد علماء سے زیادہ کوئی شخص پسند نہیں ۔ نیز میں اس لئے بھی خوش ہوں کہ میری تمام زندگی علم کی تحصیل اور اسکی تعلیم میں گزری ہے اور میں اس سلسلہ میں اپنی تمام مساعی کو مستجاب اور مشکور گمان کرتاہوں ۔ اس لئے کہ تما م فرائض اور سنن اور انکے ثواب کی تفصیلات ہم کو زبان رسالت سے معلوم ہوئیں ۔ مثلا حج کا اتنا ثواب ہے اورزکوۃ کا اتنا اور ان تمام معلومات کو سو احدیث کے طالب علم کے اور کوئی شخص نہیں جان سکتا اور یہ ہی علم اصل میں نبوت کی میراث ہے ۔
یحیی بن یحیی مصمودی کہتے ہیں: اسکے بعد امام مالک نے حضرت ربیعہ کی روایت بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا کہ میں نے اب تک یہ روایت نہیں بیان کی ہے۔
حضرت ربیعہ فرماتے ہیں کہ قسم بخدا! کسی شخص کو نماز کے مسائل بتلانا روئے زمین کی تمام دولت صدقہ کرنے سے بہتر ہے اور کسی شخص کی دینی الجھن دورکردینا سوحج کرنے سے افضل ہے اور ابن شہاب زہری کی روایات سے بتلایا کہ کسی شخص کو دینی مشورہ دینا سو غزوات میں جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ اس گفتگو کے بعد امام مالک نے کوئی بات نہیں کی اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ ۱۱ یا ۱۴ ربیع الاول ۱۷۹ھ کو آپ نے مدینہ طیبہ میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔ اولاد امجاد میں تین صاحبزادے یحیی ،محمد اور احمد چھوڑے۔
تحریر: یاسرعرفات شاہ قریشی ہاشمی