Article by Muhammad Ahmed Raza
مسجد میں نماز کے لے اپنی ذاتی مجبوری کے باعث مسجد امام پانچ منٹ تاخیر سے پہنچے تو جلد باز لوگ بھی امام پر انتہائی جاہلانہ طریقے سے باتیں کرتے ہیں، مسجد امام تمہارا ملازم نہیں اس کاعہدہ کسی وزیراعظم سے بھی زیادہ ہے وہ مسجد کا امام ہے تمہارا ملازم نہیں ہے اپنے مسجد امام کی قدر کیا کرو اس کے بھی بال بچے ہوتے ہے اس کا بھی گھر ہوتا ہے اس کی بیوی ہے اس کے بچوں کی بھی خواہش ہوتی ہے اگر مسجد امام تم سے تنخواہ طلب کرے تو ایسے سیخ پا ہوجاتے جیسے اس نے تم سے تمہاری جائیداد طلب کی ہو اگر امام مسجد معاشی تنگدستی کی وجہ سے کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کر لے تب بھی کہتے ہیں مولویوں کے پیٹ نہیں بھرتے، محلہ کے نام نہاد نمازی نام نہاد مسجد کے ٹھیکیدار بولنا شروع کردیتے اور انتظامیہ جواب دے دیتی ہے یا امامت کرو یا روزی۔ مولوی بھی انسان ہے اس کا گھربار ہے اس کے گھر کی ضروریات ہیں مسجد امام اگر دم درود کرنے پرمانگ لے تومولوی صاحب کو جواب دیتے ہیں کہ مولوی صاحب ثواب حاصل کریں۔ بچہ رو رہا ہو تو مسجد کے مولوی سے دم کرلاؤ ہدیہ کچھ بھی نہیں دینا، اگر بچہ روئے یاکوئی مسئلہ ہو تو مولوی سے فری میں دم کروائیں گے لیکن ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو پیسوں کی پرواہ نہیں کریں گے بس مولوی کو دیتے وقت انہیں حالات کا رونا روتے سنیں گے، امام کا جب بچہ بیمار ہوجائے کیا اسے کوئی ڈاکٹر بغیر فیس کے دیکھتا ہے؟
ڈاکٹر یہ سوچ لے کہ مسجد امام ہے مجھے لحاظ کرلینا چاہیے فری ہی چیک کروں مگر وہ نہیں کرے گا۔
وہ وقت اور تھا جب مسجد کے امام کی عزت و احترام کیا جاتا تھا اور آج یہ وقت ہے جہاں مسجد امام کی تذلیل کی جارہی ہے، کیا ایک پرچون یا یوٹیلٹی سٹور والا مہینے کا راشن مفت میں دیتا ہے؟ نا جی پہلے پیسہ لیتا ہے پھر راشن دیتا ہے خدارا امام کا احساس کریں 5 6 ہزار دے کر تمہارا ملازم نہیں بن گیا، مسجد کی صفائی بھی کرے اور عشاء کے وقت بھی مسجد کا تالا لگا کر جائے۔ واہ جی واہ مسجد امام کی بیوی بھی ہے اس کا خرچہ بھی ہے اس کو کپڑے لا کر دینے ہیں، اس کی ضروریات پوری کرنی ہیں، بچوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں ان کو پڑھانہ ہے، اگر مسجد امام انتظامیہ سے کہہ دے کچھ مدد کردو تو جھٹ سے طعنہ دیتے ہیں 5ہزار مہینہ کے دئیے تو ہیں کیا اب سب کچھ ہم نے دینا ہے.
جسے دیکھو اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرتا ہے ڈاکٹر اپنے حق کیلئے مریضوں کو چیک کرنا چھوڑ دیتے ہیں چاہے کوئی مرے جیئے کوئی پرواہ نہیں، وکیل عدالتوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں لیکن کبھی کسی مولوں نے کہا کہ مجھے یہ چاہیے ورنہ نماز نہیں پڑھاؤں گا؟ کبھی نہیں کبھی کسی نے مولویوں کیلئے ان کے حقوق یا معاشی تنگی کیلئے کوئی اقدام نہیں کئے نا ہی اس پر کوئی بات کرتے ہیں۔
قرآن میں کچھ یوں بیان ہے کہ “قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کی قدر کرو ان سے سیکھو” نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کیلئے مولویوں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ جہالت کو ترک کرو اسلام ہی جدید و دور حاضر کا بہترین مذہب ہے۔
آخری بات جو لوگ مسجد امام کے ساتھ بغض رکھتے ہے اس کے پیچھے نماز پرھتا ہے ان کی نماز قبول بھی نہیں ہوتی۔
تحریر: محمد احمد رضا
کیا خوب لکھا ہے اللہ آپکو جزائے خیر دے