کہاں گیا میرے قائد کا پاکستان
Article by Maria Ibadat Awan
آج کا پاکستان کیا واقعی “قائداعظم کا پاکستان” ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ اور کسی بھی باشعور پاکستانی سے اس سوال کا جواب پوچھیں تو 98فیصد کا جواب “نہ” میں ملے گا اور میرے نزدیک بھی آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے ۔۔۔ قائداعظم کا نظریہ پاکستان بڑا واضح ہے لیکن اس بارے میں جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ رکھا جاتا ہے۔۔۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے اس ملک کو آزادی کے بعد ایک سال تک نہایت احسن طریقے سے چلایا ۔ تمام سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی مشکلات کے باوجود، سلامتی کے چیلنجز کے باوجود پاکستان کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیا ۔ قائداعظم کے پاکستان کو جاننے اسے سمجھنے کا بہترین طریقہ اور ذریعہ یہ ہے کہ ہم آپ کے ایک سالہ بے مثال دور حکومت کا جائزہ لیں ۔۔۔ آج جو پاکستان ہے یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی تعبیر قائداعظم نے کی تھی جس کے قیام کیلئے ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو پامال ہوئی تھی، بچے یتیم ہوئے تھے، عورتیں بیوہ ہوئی تھیں یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے ۔ جہاں تک آج کے پاکستان کا تعلق ہے آئے دن اس کے وزیروں مشیروں کے ڈرامے ہماری آنکھوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں ان کے تمام سیاہ کارنامے صبح نور کی طرح روشن ہیں ان کی عیاریاں اور مکاریاں بے نقاب ہیں۔ آئیے پہلے ہم قائداعظم کے ایک سالہ دور حکومت کا جائزہ لیتے ہیں جس کو آپ نے اپنی خراب صحت کے باوجود کیسے چلایا۔! قائداعظم نے جب گورنر جنرل کی حیثیت سے پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی جو صرف دس افراد پر مشتمل تھی جبکہ اس وقت مشرقی پاکستان بھی پاکستان کا حصہ تھا، اس کابینہ میں لیاقت علی خان‘ آئی آئی چندریگر ‘ غلام محمد‘ سردار عبدالرب نشتر‘ غضنفر علی خان‘ جوگندر ناتھ منڈل‘ فضل الرحمان‘ خواجہ شہاب الدین اور پیرزادہ عبدالستار جیسے نیک نام اور مخلص لیڈر شامل تھے۔ قائداعظم نے یہ کابینہ میرٹ اور صرف میرٹ پر تشکیل دی۔ کوئی دباؤ قبول نہ کیا، ملکی خزانے پر بوجھ نہ ڈالا، کوئی اقربا پروری نہ کی حالانکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا پورا استحقاق تھا کہ ان کو کابینہ میں شامل کیا جاتا۔ لیکن آپ نے اپنی بہن کو بھی شامل نہیں کیا۔ اور آج کا پاکستان جو کہ آدھا ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کو تو ہم نے کھو دیا ہے اور اب آدھا پاکستان ہے اور اس کی کابینہ کے افراد ستر کے لگ بھگ ہیں جن کی نیک نامی دیانت و امانت داری کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے قائداعظم نے اپنی حکومت کے ایک سال کے دوران مثالی گورننس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ نے بیوروکریٹس کو یہ باور کرایا کہ وہ عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں، وہ سیاست سے الگ تھلگ رہیں عوام کے مسائل کو برداشت کے ساتھ سنیں، اقربا پروری سے اور رشوت ستانی سے گریز کریں، کسی کے دباؤ میں نہ آئیں، اپنے فرائض انتہائی احساس وفاداری، دیانت، راست بازی، لگن اور وفا شعاری کے ساتھ انجام دیں تاکہ اپنے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں ۔ اور آج کی بیوروکریسی قائد اعظم کے اس فرمان سے کھلم کھلا انحراف کر رہی ہے۔ قائد اعظم نے فوجی افسروں کو آئینی حلف پڑھ کر سنایا اور انتباہ کیا کہ وہ سیاست سے الگ تھلگ رہیں۔ قائد کے اس فرمان پر بھی عمل نہیں ہو رہا بلکہ آج تو سیاست کئی مارشل لاء سے خون آلودہ ہے۔ قائداعظم نے آئین اور حکمرانی کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے آپ نے ریلوے کی ٹرین کے گزرنے کا انتظار کیا اور ریلوے کا پھاٹک کھلوا کر آگے جانے سے انکار کر دیا۔ اور آج کے پاکستان میں حکمران کے گزرنے کیلئے گھنٹوں سڑکیں جام کی جاتی ہیں عوام کو اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ان حکمرانوں کے گزرنے کی وجہ سے کوئی جان سے گزر جاتا ہے تو ان کی جوتی کو بھی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ آج کا پاکستان ہے ۔ قائداعظم نے سیاست کو خدمت سمجھ کر کیا مگر افسوس صد افسوس آج سیاست کو سرمایہ کاری بنا لیا گیا ہے ۔ قائداعظم نے قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھا کہ رات کو سونے سے پہلے گورنر ہاؤس کی فالتو بتیاں بجھا کر سوتے تھے اور آج کے پاکستان میں قومی خزانے کو باپ کا مال سمجھا گیا ہے، کوئی لوٹ کے باہر جا رہا ہے تو کوئی عالیشان عمارتیں بنوا رہا ہے۔ قائداعظم نے اپنی محنت سے بنائے گئے اثاثے اور جائیدادیں فلاحی اور تعلیمی اداروں کو وقف کر دیے تھے اور آج کے پاکستان میں عوام الناس کے پیسوں سے عیاشیاں کی جا رہی ہیں بیرون ملک جائیدادیں بنائی جا رہی ہیں۔ قائداعظم نے پاکستان کا حصول غلامی کیلئے نہیں کیا تھا اگر غلامی ہی مقصود ہوتی تو کیوں لاکھوں جانوں کے نذرانے دیتے، سرعام بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوتی دیکھتے، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنوں کو جاتے دیکھتے، یہ غلامی کیلئے تو حاصل نہیں کیا تھا لیکن آج کے پاکستان کو اغیار کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہے اور ہمارے حکمران کٹھ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو غیروں کو بیچ دیا، ہمیں ذہنی غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان تو اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا کہ جس میں ہمیں ہمارے مذہب کی آزادی حاصل ہو ہم اپنے طریقے کے مطابق عبادت کر سکیں اپنی مساجد ومدارس کا قیام کر سکیں اس ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکیں لیکن آج کے پاکستان میں کہیں مذہب کا نام و نشان نہیں ہے حکمران وہ ہیں جنھیں خاتم النبیین بھی بولنا نہیں آتا، جو کلمہ و نماز کے مفہوم سے ہی ناآشنا ہیں اور اسلام کا نام لینا خود تو دور، جو لیتے ہیں ان کی زبانوں پر قفل لگا دیے جاتے ہیں۔ مساجد کے سپیکرز پر پابندیاں لگا دی گئیں، قائداعظم نے ایک سال سچ کی بنیاد پر حکومت چلا کر دکھائی جب کہ آج پاکستان میں صبح شام جھوٹ بولا جاتا ہے۔ آج پاکستان کی حالت بقول شاعر کچھ اس طرح ہو چکی ہے بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے ماردینگے لوگ قائداعظم کے پاکستان میں پاکستان کو نظام مصطفیٰﷺ کے مطابق اصول شرعیہ کے مطابق چلانا تھا ملک میں نظام مصطفیٰﷺ کا حصول تھا. آج کے پاکستان کو انگریزوں کے نظام کے مطابق چلایا جا رہا ہے جو قائد اعظم کے تصورات سے مکمل انحراف ہے۔ ان حالات میں خاموشی بے حسی جرم ہے۔ پاکستانی عوام کا قومی فرض ہے کہ وہ آزادی کی تکمیل قائد اعظم کے پاکستان کی تشکیل کیلئے جدوجہد کریں۔ آنکھیں کھول کر بیدار اور باشعور ہو جائیں۔ اور اب ان کا ساتھ دیں جو پاکستان کو صحیح معنوں میں قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں ۔۔۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے تو اپنا پاکستان بچائیں گے۔۔۔۔ بقول اقبال اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخِ امرا کے در و دیوار ہلادو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹادو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو حق را بسجودے، صنماں را بطوافے بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھادو میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھادو! تحریر: ماریہ عبادت اعوان
زندہ باد