خواب سے حقیقت تک
Article by Bint E Hassan
“رُکیے !! اورکچھ لمحے سوچیے”
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اسلاف کی میراث کھو کر ہم نےکیا پایا؟ رسوائی، ذلت، زمانے کی ٹھوکریں؟ آئیے آج اپنی غیرت کا جائزہ لیں۔ دنیا کی جدت میں پہلا وبال تب اٹھا جب انسان نے نت نئی ایجادات کرنا شروع کیں، جدیدیت نے اسلاف بھلا دیا ،غیرت دفن کر دی لیکن آج بیٹھے بیٹھے یاد آیا تو میں نے اپنے کتبے اکھاڑنا شروع کیے، منوں مٹی تلے دفن مجھے اپنا آپ روندا ہوا دکھائی دیا پھر میں نے اور کھدائی کرنا شروع کی تو مجھے اپنا آپ بے بس سا محسوس ہوا اور سے اور گہرائی میں چھلانگ لگائی تو کیا پایا، سنیں کھدائی سے مجھے قیمتی جوہرات ملے، ہاں وہ گوہر نایاب جو ہم نے گنوا دیا ؛ اسلامی تاریخ کا پہلا جاندار کردار ارطغرل غازی الرحمہ علیہ “
آخر اس دنیا کو ہو کیا گیا ہے؟ کیسا وبال اٹھا رکھا ہے، کیسے مسلمانوں کی تاریخ سے خوف زدہ ہیں؟ ابھی تو ہم نے صرف اپنے درخشاں تاریخ کے ترکش میں موجود ایک ہی تیر باہر نکلا ہے ” ارطغرل ” اور اُسی کو دیکھ کر دنیا دیوانی ہوتی جا رہی ہے، تو سوچو فرضی کردار اس قدر جاندار ہے تو حقیقی کردار کا رعب و دبدبہ کیسا ہو گا ؟ ہاں چلو اس وقت میں چلتے ہیں اور اپنی کھوئی میراث ڈھونڈتے ہیں۔
لیکن اس وقت میں جانا مکمن نہیں ، ہمیں مغرب کی چمکتی تہذیب نے مرعوب کر دیا ہے اور سہل پسند بنا دیا ہے ، ڈرا دیا ہے کہ اگر دوبارہ تلاش کرنے نکلے تو پتھر کے بن جاو گے کیا تم پتھروں کے زمانے میں جانا چاہتے ہو؟ نہیں میں جدت پسند ہوں ، میں ٹک ٹاکر،پب جی کا ماہر ہوں۔
لیکن نہیں آج ہم میراث کے چند درخشاں ستارے ڈھونڈ
کر رہیں گے، سب ہی سیاہ پٹی کھول لیں اور ٹائم ٹریول کا تصور یعنی “وقت کی مسافت” کا سوچیں ۔
تاریخ کا سب سے پہلا پنہ پلٹ دیا گیا ہے اور ابھی ہم نے اپنے اسلامی دنیا کے سب سے اولین سپہ سالار حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا نام دیکھا ہے، ہاں نام تک ٹھیک ہے چلو اگلا ورق پلٹو ” فاتح شام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ”
جنہوں نے بیشتر زندگی میدان جنگ میں گزاری، ساری زندگی جہاد کیا اور موت بستر پر آئی”
زیادہ نہیں بتاتی قاری اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے، بہر حال آگے چلو، چلتے جاؤ، یہ دور ہے “فاتح مصر عمر ابن عاص رضی اللہ عنہ”
چلو اور قدم بڑھاؤ، ورق پلٹو، رکنا نہیں، فاتح فارس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ”
تھک کیوں گئے ہو بس نام ہی گنوائے ہیں کارنامے تو تاریخی ہیں جن کو ہاتھ بھی نہیں لگایا، تاریخ کا ایک اور باب بدلو، آگے کون ہیں؟ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ” کیا ہوا نام یاد رکھنا بھی مشکل لگ رہا ہے؟ اب ایساتو مت کرو، جدید دور میں جب تم سائنس کے کرشموں سے لے کر آسمانوں کی سیر تک جا سکتے ہو، ٹک ٹاک پر نت نئی ویڈیوز بنا سکتے ہو ،پب جی کے کرداروں کو یاد رکھ سکتے ہو تو یہ تو محض نام ہیں ۔
رکو !! کچھ دیر چلو سانس لے لو ، اچھا تو میں کہہ رہی ہوں؛ تاریخ میں ایک روشن نام” عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے ۔”
تم آنکھیں مت پھیلاؤ، اسلامی تاریخ ان ناموں اور کارناموں سے بھری پڑی ہے۔
چلو تھوڑی سی مسافت باقی ہے اگلی سطر پر نگاہ دوڑا لو، ہاں روشن چمکتا نام “ابودرداء رضی اللہ عنہ کا ہے” تھوڑا مشکل ہے، چلو کوئی نہیں جہاں میتھ اور غیر قومی زبان آپ فر فر بول اور سمجھ سکتے ہو تو یہ نام پڑھنا کون سا مشکل ہے؟
ہاں مشکل تو پیش آئے گی ناں کیوں کہ ہم سہل پسند ہو چکے ہیں ،مشکل کو آسان کیے بس نام گنواتی ہوں دھیان سے سننا ،۔
عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل”
ضرار بن ازور “
اور دیگر عظیم شہسواروں اور سپہ سالاروں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ہے اور دنیا پاگل ہو رہی ہے ۔
ابھی تو فاتح ہند محمد بن قاسم، فاتح اندلس طارق بن زیاد، فاتح افریقہ موسی بن نصیر سلطان اول اسپین عبدالرحمن الداخل ، عبدالرحمن الوسط کی تاریخ دکھانا باقی ہے۔
ابھی تو فاتح قیروان عقبہ بن نافع سے لےکر ابو مسلم خولانی قتیبہ بن مسلم باہلی اور یوسف بن تاشفین کے بارے میں بھی بتانا ہے۔
ابھی تو فاتح صلیبی جنگ اول عماد الدین زنگی اور نورالدین زنگی سے ہوتے ہوئے فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے کارنامے تاریخ کے روشن دان میں پڑے ہیں۔
ابھی تو علاؤالدین خوارزم شاہ سے لےکر جلال الدین خوارم شاہ کے بارے میں تاریخ بھری پڑی ہے ۔
ابھی تو وسط ایشیا میں طغرل بیگ، الپ ارسلان اور ملک شاہ سے ہوتے ہوئے شاہ رخ اور الغ بیگ کے کارناموں کی نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے۔
ابھی تو سلطان ملک الظاہر بیبرس سے ہوتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے ارطغرل کے ساتھ ساتھ عثمان کے بعد سلطان اورخان سے ہوتے ہوئے فاتح قسطینطنیہ سلطان محمد فاتح کے عظیم کارناموں سے اسلامی تاریخ بھری ہوئی ہے ۔
ابھی تو سلطانِ عالیشان سے ہوتے ہوئے سلطان سلیم، سلطان عباس اور سلطان مراد تک پہنچنا ہے۔
ابھی تو سلطان محمود غزنوی اور مسعود غزنوی سے ہوتے ہوئے سلطان شہاب الدین غوری تک پہنچنا ہے ۔
ابھی تو سلطان ناصر الدین قباچہ، بادشاہ شمس الدین التمش اور غیاث الدین بلبن تک پہنچنا ہے۔
ابھی تو سلطان جلال الدین خلجی سے سلطان علاؤالدین خلجی اور سلطان محمد تغلق کا بھی بتانا ہے ۔
ابھی تو بہلول لودھی سے سکندر لودھی ظہیرالدین بابر اور شیر شاہ سوری سے ہوتے ہوئے شاہ جہاں اور سلطان اورنگزیب سے ہوتے ہوئے ٹیپو سلطان کے بارے میں بھی بتانا اور دکھانا باقی ہیں۔
ابھی تو لیبیا کے عمر مختار سے لے کر قندھار کے محمد عمر تک بتانا ہے ابھی تو ان اولیاء اور صوفیاء کے بارے میں بھی بتانا ہے جنہوں نے جہان بے رنگ و بو کو اسلام کی خوشبو اور رنگینیوں سے منور کیا ابھی تو ایسا بہت کچھ بتانا اور دیکھانا باقی ہے ابھی دنیا سے کہو کہ پاگل نہیں ہوجانا ابھی تو روشنی کے مینار دکھانا باقی ہیں، ابھی اس دنیا فانی کے بعد ابدی دنیا کے کامیابی کے راز بتانا باقی ہیں، ابھی تو اس دینِ اول دینِ اصل اور دینِ بے بدل کے بارے میں بتانا باقی ہے جس دین کو کچھ اس دین کے رکھوالوں نے اور کچھ اس دین کے دشمن جہان والوں نے مسخ کر کے دکھایا ہے ابھی تو بہت کچھ بتانا اور دکھانا باقی ہیں بس ابھی سے پاگل نہ ہوجانا۔ ابھی اس دنیا نے وہ دیکھا ہی نہیں جو دیکھنا چاہئیے ابھی اس دنیا نے وہ جانا ہی نہیں جو جاننا چاہئیے۔
زندگی کے بہت سے ادوار باقی ہیں اسلامی تاریخ روشن ستاروں سے بھری پڑی ہے اے قسی القلب وقت!! پنے پلٹ اور سوئی امہ مسلمہ کو بتا کہ تم کیا تھے، تم کون تھے، تم کہاں پہنچ گئے ہو، تم کیوں ثریا سے گرا دئیے گے، تم نے کیا کھو دیا ۔تم نے اپنی خوداری بیچ دی، تم نے جہاد ترک کر دیا، تمہیں امن امن والا اسلام پڑھایا جاتا ریا، تمہارے اسلاف سے دور کر دیا گیا، تم خاموش رہے ، تمہارے مسجد کے منبر سے لے کر تمہاری عزت و وقار کو روند دیا گیا یہاں تک علمائے حق کو جیل کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا۔جانتے ہو یہ سب کیوں کروایا گیا تاکہ تم خود کو جان نہ سکو تم پہچان نہ سکو اور تم مغرب کی چندھیا دینے والی روشنی میں کھو کر اسلاف کےساتھ ساتھ خودی اور ماں، بہنیں بیٹیاں اغیار کو دے دو اور تم اف تک نہ کر سکو۔
خطابانِ جوان مسلم!!! تم دنیا کی رنگینوں میں کھو کر اپنا وقار اپنا مقام و مرتبہ بھول گے ۔
“گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”
تحریر: بنت حسن
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا