قیام پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار

Article by Bint e Sajjad
قیام پاکستان کے محرکات کیا تھے اسکی تاریخ بہت پرانی ہے۔
تاریخِ ہند علماء و مشائخ اہل سنّت کی ناقابل فراموش قربانیوں اور خدمات سے بھری پڑی ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے لے کر قیام پاکستان تک خطہ میں علمائے اہل سنّت اور مشائخ طریقت کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس خطہ میں انقلاب کی بنیاد ہی انہوں نے رکھی تو غلط نا ہوگا۔
تحریک آزادی اور علمائے اہلسنت
حق کی خاطر آواز بلند کرنے والے آزادی کے پہلے مرد مجاہد علامہ فضل حق خیر آبادی تھے۔ برصغیر میں آمد کے بعد آپ اپنے علم و حکمت اور شعور و سے بصیرت بھانپ گئے تھے کہ کہ کیسے مسلمان ذہنی طور پر انگریز غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور کیسے مکاری سے انگریز نا صرف مسلمانوں کی نسل کشی کرے گا بلکہ ہمارے مذہب اور مسلمانوں کے تشخص کو بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ لہذا آپ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف جہاد کرنے کا فتویٰ جاری کیا، جسکی حمایت میں مفتی صدر الدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی کے اور دیگر وقت کے تمام علما و اکابرین نے دستخط کیے۔ اس وقت اعلی حضرت امام اہل سنت کی عمر ایک برس تھی۔ آپکے دادا حضرت مولانا مفتی رضا علی خان رحمتہ ﷲ علیہ اور آپکے والد محترم مولانا نقی علی خان رحمتہ ﷲ علیہ نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی ۔ اس فتویٰ کے جاری ہونے کی دیر تھی کہ پورے برصغیر میں انگریز کے خلاف عظیم الشان مہم کا آغاز ہوا جسے کچلنے میں مکار انگریز حکومت نے بہت سے مجاہدین آزادی کو شہید کیا۔ علامہ صاحب کو گرفتار کیا گیا کالا پانی کی سزا سنائی گئی اور دوران قید ہی۱۸۶۱ء میں آپکا وصال ہوا۔ یوں کسی حد تک انگریز آزادی کی تحریک کو وقتی طور پر کچلنے کے بعد مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو نہیں نکال سکے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
آزادی کی تاریخ میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمتہ ﷲ علیہ کے ایک اور عظیم ساتھی مجاہد سید کفایت علی کافی رحمتہ ﷲ علیہ کا ذکر قابل قدر ہے۔ آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ اور اسلام کے سچے سپاہی تھے۔ آپکو ۱۸۵۸ء میں پھانسی کی سزا سنائی گی۔ پھانسی کے وقت آپکی زبان پر یہی اشعار تھے
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہﷺ کا دین حسن رہ جائے گا
مولانا عبدالجلیل علی گڑھی رحمتہ ﷲ علیہ انگریز کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے اور جامع مسجد علی گڑھ میں مدفن ہیں۔ اسی طرح حضرت مولانا صدر الدین آزردہ رحمتہ ﷲ علیہ اور دیگر بے شمار علماء کرام جنہوں نے آزادی کی تحریک میں بنیادی کردار ادا کیا افسوس آج بہت کے نام بھی تاریخ لکھنے والوں نے فراموش کر دئیے بلکہ انکی جگہ انگریز کے وفاداروں کے نام رقم کیے۔
بہر حال اسی اثناء میں ہندو نے کمال چالاکی سے انگریز بھگانے کی آڑ میں مسلمانوں کو ہندو مسلم اتحاد کا جھانسہ دیا۔ وہ دراصل مسلمانوں کی مدد سے انگریز کو یہاں سے بھگا کر خود خطہ پر وابیض ہونے کا خواب دیکھ ہوئے تھے۔ اس اتحاد کی کوششیں کرنے والوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کے علاوہ خود بانی پاکستان قائد بھی شامل تھے ۔ لیکن بعد ازاں ان سبکو بھی احساس ہو گیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہندو اور انگریز دونوں سے جان چھڑا کر ایک الگ مملکت اسلامیہ کا قیام ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قائد جلد ہی ہندو مکاری کو بھانپ گئے اور انہیں نے کانگریس چھوڑ کر ۱۹۱۳ میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور آزادی کے لئے جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اسی دوران تحریک ہندو مسلم اتحاد، تحریک ترک مولات تحریک ریشمی رومال اور ایسی بہت سی تحریکیں چلنے لگیں۔ اس اتحاد کی کوششوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا، بہت سے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی لوگوں نے اپنے فوجی اعزاز تک واپس کر دئیے۔ حتی کہ مسلمانوں کے تشخص کو بھی نقصان پہنچایا گیا، ہندو مسلم شادیاں بھی شروع ہوگئیں۔ ہر طرف فتنوں کا جال بنا گیا اور مسلمانوں کو آزادی کی آڑ میں انکے مذھب سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
اس مشکل گھڑی میں ہمارے امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ ﷲ علیہ نے میدان میں موجود تھے اور مسلمانوں کی مختلف مواقع پر رہنمائی فرماتے رہے۔ جب تحریک خلافت چلی تو آپ رحمتہ ﷲ علیہ نے دَوَامُ العیش نامی رسالہ لکھ کر مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔ جب تحریک ترک مولات چلی تو اعلی حضرت رحمتہ ﷲ علیہنے رسالہ نَابِغُ النور لکھا۔ جب تحریک ہجرت چلی تو اعلی حضرت رحمتہ ﷲ علیہ نے اِعلَامُ الاعلام رسالہ لکھا۔ ان دونوں رسالوں میں آپ نے کفرانہ سازشوں کو تر تر کر کے رکھ دیا۔ یہ تینوں رسالے آج بھی فتاویٰ رضویہ شریف کی جلد نمبر چودہ میں ستاروں جیسے جگمگا رہے ہیں۔
اسی دوران جب مسلمانوں کے بہت سے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا تو ڈاکٹر علامہ اقبال نے اسکی شدید مخالفت کی اور لاہور اسلامیہ کالج کے ایک استاد نے اعلی حضرت رحمتہ ﷲ علیہ سے اس بارے میں فتویٰ پوچھا تو اعلی حضرت نے قرآن و سنت کی روشنی میں اسکا جواب دے کر کفار کی سازش ناکام کی۔
دو قومی نظریہ
تاریخ ہند میں دو قومی نظریہ کی بنیاد سب سے پہلے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ ﷲ علیہ نے رکھی جب ہندو، اکبر بادشاہ کے ذریعے دین اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے تب حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اعلی کردار ادا کیا اور ہندو سازشوں کو ناکام کیا۔ برصغیر میں رونما والے بعد کے حالت و واقعات انکی دور اندیشی کو ثابت کرتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہرگز ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ بعد ازاں امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمتہ ﷲ علیہ نے ۱۸۹۷ء کو پٹنہ میں منعقد ہونے والی سنی کانفرنس میں مسلم قومیت کا علیحدہ تصور با ضابطہ طور پر پیش کیا۔ آپ نے ہندو مکاری اور وقت کے اٹھتے ہوئے فتنوں کے خلاف اپنا مذہیبی فریضہ سنبھالا اور دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
مسلمان الگ قوم ہیں اور غیر مسلم خواہ ہندو، ہو برطانیہ کا ہو یا امریکہ کا وہ تمام ہم سے الگ ہیں۔ تم نے ہنفو سے دوستی کر لی کہ اس طرح انگریز تمہیں حکومت دے کر جائے گا تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ کفر سب آپس میں ایک ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سر سید احمد خان کو دو قومی نظریہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی پہلے ہنفو مسلم اتحاد کا حامی تھا لیکن ۱۸۶۷ء کے اردو ہندی تنازعہ کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں لیکن اس نے مسلمانوں کو انگریز سے صلح و دوستی کی ترغیب دی، مسلمانوں کو انگریزی زبان و تعلیم سیکھنے پر زور دیا انگریزی ثقافت اپنانے کا کہا اور یوں انگریز کے لئے نوکری کی اور سر کا خطب حاصل کیا۔ حقیقت میں دو قومی نظریہ کی اصل تشریح و وضاحت امام اہلسنت اعلی حضرت رحمتہ ﷲ علیہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمائی۔ آپ نے واضح فرمایا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور تمام غیر مسلم خواہ کسی بھی علاقے اور قوم سے تعلق رکھیں وہ سب ایک الگ ملت ہیں۔
اسی طرح ۱۹۳۰ء کے خطبہ الہ آباد میں ڈاکٹر علامہ اقبال نے دو قومی نظریے کو فکری قوت عطا کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ اب برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کا قیام نا گزیر ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہندوؤں سے الگ ایک ایسی ریاست بنائی جائے جہاں وہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی بسر کریں جہاں اسلامی شریعت کا نفاز ہو اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو ۔ یوں تحریک آزادی ہند تحریک پاکستان میں بدل گئی۔
تحریک پاکستان اور علمائے اہلسنت
اعلی حضرت رحمتہ ﷲ علیہ اس وقت تک وصال کر چکے تھے لیکن آپ رحمتہ ﷲ علیہ نے اپنے ہونہار شاگرد ماہر علمائے اہل سنت پر مشتمل ایک تنظیم بنائی تھی جس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جب پاکستان کی تحریک چلی تو بانی پاکستان نے حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمتہﷲ علیہ اور مولانا عبدالعلیم صدیقی رحمتہﷲ علیہ کو پاکستان سے متعلق آگاہی کے لئے باہر بھیجا۔ چنانچہ آپ دونوں نے عرب اور دوسرے ممالک کا دورہ کیا اور لوگوں کو آگاہ کیا کہ پاکستان کا حصول کیوں ضروری ہے۔ بعدازاں انکی خدمات کی بدولت قائداعظم نے انہیں سفیر اسلام کا خطاب دیا۔
بنارس کے مقام پر ۱۹۴۶ء میں آٹھویں عظیم الشان سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں پانچ سو مشائخ اور سات ہزار علما موجود تھے اور صف اول میں موجود تھے سنی علما کرم جن میں حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمتہ ﷲ علیہ، امیر ملت حضرت علامہ پیر سید جماعت علی شاہ محدثِ علی پوری رحمتہﷲ علیہ ، حضرت علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی رحمتہﷲ علیہ، حضرت علامہ ابولبرکات صاحب رحمتہﷲ علیہ، حضرت علامہ ابوالحسنات رحمتہﷲ علیہ، حجتہ الاسلام مولانا حمد رضا خان رحمتہﷲ علیہ، مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمتہﷲ علیہ ، مولانا امجد علی خان رحمتہﷲ علیہ، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمتہﷲ علیہ، حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمتہﷲ علیہ کے علاوہ دیگر پانچ ہزار علم و مشائخ کی موجودگی میں متفقہ قرارداد پیش کی گی کہ مسلم لیگ اور محمد علی جناح اگر قیام پاکستان کے فیصلے سے دستبردار ہو بھی جاتے ہیں تب بھی علما و مشائخ اہل سنت قیام پاکسان کے لئے جدو جہد جاری رکھیں گے۔
برصغیر میں ہر طرف نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں تحریک پاکستان کے لئے محبت پیدا کی گئی حتٰی کہ گھر گھر جا کر تحریک پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی گئی اور مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان سے محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ بزرگوں کی دعاؤں سے علما مشائخ، عوام اور مسلم رہنما (بالخصوص) قائد کی محنت رنگ لے آئیں اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر اسلام کا قلعہ بن کر قائم ہوا۔
کبریا کا لطف تھا اور رحمتِ شاہِ زمَن
ہم کو سینتالیس میں حاصِل ہوا اپنا وَطن
ہم پہ جِدّ و جُہْدِ آزادی میں تھے سایہ فگن
اَولیائے اُمَّتِ اَحْمَد ، صحابہ ، پنج تَن
اہلسنت و الجماعت کی مقاصد سے لگن
رنگ کیسے لے نہ آتی ، کیوں نہ مل جاتا وطن
گویا قیام پاکستان کے حصول میں علما و مشائخ اہل سنت کی علمی ادبی اور سیاسی جد وجہد کا بنیادی کردار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم اور دیگر بہت سے سیاسی رہنماؤں نے پہلی عید کی نماز خلیفہ اعلی حضرت رحمتہﷲ علیہ علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمتہﷲ علیہ کی امامت میں پڑھی۔
برصغیر کے مسلمان عوام اور علماء کرام ایک ایسی ریاست کے لئے جد و جہد کرتے رہے جہاں نظام مصطفیٰﷺ قائم ہو۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے اہم کام اسکی نظریاتی حثیت کا تعین کرنا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے قائم ہوا۔ قائد اعظم پاکستان اسلامی شریعہ کا نفاذ چاہتے تھے اسکی گواہی خود انکے قریبی رفیق اور عالمی سطح کے مایہ ناز مورخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے دی کہ
“قائد ہمیشہ اسلام کا نام لیتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کے حصول کا مقصد خالصتاً ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکیں اور ثابت کر سکیں کہ اسلام کے اصول بنی نوع انسان کی حقیقی رہنمائی کے لئے آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں جیسے ابتداء میں تھے۔ “
قائد اعظم نے ۱۹۴۵ء خانقاہ مانکی شریف میں علماء کرم اور مشائخ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
“مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کونسا قانون نافذ ہوگا؟ آپ نے قرآن کریم اٹھا کر کہا میں کون ہوتا ہوں ریاست کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا جبکہ مسلمانوں کا طرز حکومت چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں بیان فرما دیا گیا اور یہ ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے۔”
قیام پاکستان کے بعد کے حالات
آزادی تو حاصل کر لی لیکن اس کے بعد عرض وطن جس نظریہ کے تحت حاصل کیا گیا اور جن مقصد کے لئے پاکستان بنا وہ آج تک حاصل نا ہو سکے۔ یہاں مکمل طور پر صحیح معنوں میں شریعہ اسلامی کا نفاذ آج بھی نہیں۔ ہمارے انصاف و عدل کے ادارے سے لے کر نظام تعلیم، سیاست، معشیت، معاشرتی تہذیب و ثقافت گویا کہیں بھی ہم اسلام پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ہی سیکولرزم کی باتیں شروع ہو گیئں۔ پھر 1953ء میں بعد فرنگیوں کے خود کاشتہ پودے قادیانیت کی سازشوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کا مرحلہ پیش آیا۔ یہ فتنہ وقتاً فوقتاً ہماری نظریاتی اساس پر حملے کرتا رہا اور جسکا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قوم کو تفرقات میں بانٹ کر نظریہ پاکستان سے دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بالخصوص میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی کی کی گئی۔ لبرلزم کو فروغ دیا گیا اور مغربی ثقافت و طور طریقوں کو رائج کرنے کی بھرپور کوشش جاری رہی ہے۔
غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ
اے لَا اِلٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گُفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ
ایسے میں علماء اہل سنت ہر مشکل گھڑی میں حق گوئی کرتے رہے۔ یہ انہی کی کوششوں کا ثمر تھا کہ 1953ء سے لے کر 1974ء تک کی طویل جد و جہد اور بے شمار شہادتوں کے بعد بلاخر مجاہد ختم نبوت احمد شاہ نورانی کی قیادت میں تحفظ ختم نبوت بل قومی اسمبلی سے منظور ہو گیا۔
بہر حال حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی ۔ نومبر 2017ء میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں اہل سنت کے عظیم مرد قلندر امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ ﷲ علیہ میدان عمل میں آئے اور باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ آٹھ مجاہدین تحفظ ختم نبوت نے جام شہادت نوش کیا لیکن اس مکروہ سازش کو کچل کے رکھ دیا۔ آپ رحمتہ ﷲ علیہ نے فلسفہ اقبال کو ایک بار پھر سے اجاگر کیا اور امت کی سوئی ہوئی غیرت ایمانی کو للکارا۔ آپ رحمتہ ٰعلیہ نے نوجوان نسل میں جزبہ جہاد اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ حق گوئی کی اسی پاداش میں آپ رحمتہﷲعلیہ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ نظریہ پاکستان کے تحفظ اور قوم میں سیاسی شعور و رہنمائی کے لئے جماعت تحریک لبّیک پاکستان کی بنیاد رکھی۔ جو آج ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت ہے اور تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔
امیر المجاہدین جو پودا لگا کر گئے آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ اس وقت آپکے صاحبزادے جناب حافظ سعد حسین رضوی حفظہ اللہ کی قیادت میں یہ قافلہ نظام مصطفیٰﷺ کے قیام کے لئے پوری جد و جہد کے ساتھ کوشاں ہے۔
اور وہ دن دور نہیں جب ظلمت کے بادل چھٹ کر رہیں گے اور دن تخت پر آۓ گا۔
اب ترا دَور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی رُوحِ فرنگی کو ہوائے زر و سِیم
تحریر: بنتِ سجاد






