شمشیرِ اقبال
Article by Abroo Rajpoot
مرکزی امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی دامت برکاتہم العالیہ 27 نومبر 2022ء الحمراء آرٹس کونسل میں لائیو کیلیگرافی کی ایک تقریب بنام “اپنا نام پیدا کر” میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیے گئے، (یاد رہے اس ایونٹ کی آرگنائزر تحریک لبیک پاکستان نہیں تھی)
سامعین میں مغربی تہذیب سے متاثر مرد و خواتین دونوں طرح کے لوگ موجود تھے، کچھ خواتین نے نقاب کیا ہوا تھا، کچھ نے فقط دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور کچھ دوپٹے سے آزاد تھیں۔
سعد رضوی نے وہاں “اقبال” سمجھایا اور کیا خوب اقبال سمجھایا! اور سمجھاتے بھی کیوں نہ، آخر سبقاً سبقاً، لفظاً لفظاً پڑھا بھی تو مجدد دوراں امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ سے ہے۔
مختصر وقت میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی بھرپور کوشش کی، مغربی تہذیب سے متاثر لوگوں کو امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی نے اقبال سمجھاتے ہوئے نگاہ پاک رکھنے اور خواتین کو دوپٹہ کرنے کی نصیحت ان اشعار کے ذریعے کی:
میسّر آتی ہے فُرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ
فروغِ مغربیاں خِیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ مازاغ
اسکی تشریح کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اقبال کہتے ہیں
یہ جو مغربیوں کا فروغ ہے نا، یہ جو نئی چمک دمک ہے، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تیرے کپڑے اتار کر، یا تیرے سر سے دوپٹہ اتار کر یا تیرے تن کے کپڑے چھوٹے کر کے تجھے ترقی کی راہ پر لے جا رہے ہیں، اقبال کہہ رہا ہے
فروغِ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
یہ تیری آنکھوں کو دھندلا رہا ہے،کاش تیری نظر کا وہ نگہبان ہو جائے جس کو قرآن نے کہا “مازاغ” کہ تیری آنکھیں شریعت کی تابع ہو جائیں۔
سعد رضوی نے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کی ایمانی غیرت کو جگانے کی اپنی سی کوشش کی، امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی دامت برکاتہم العالیہ فرمانے لگے کہ “اقبال کے مطابق سارے جہان عشق کے زیرِنگیں ہیں۔ اقبال کو صرف خودی تک محدود کر دیا جاتا ہے، اقبال نے تو لوح و قلم سے آگے کی باتیں کی ہیں۔ فقر عشق کی پہلی سیڑھی ہے، فقر نہیں ہے تو پھر عشق نہیں ہے۔ سعد بھائی فرمانے لگے کہ اقبال کہتے ہیں “میں دل وہ رکھتا ہوں جس میں دونوں جہاں سماں جائیں”
اس ایونٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی ایک خدیجہ نامی خاتون کو پرائز دینے کے لیے نقیب خاتون نے حافظ سعد حسین رضوی کو مدعو کیا، امیر تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ موجود ایک بھائی نے منع بھی کیا مگر نقیب خاتون کے اصرار پر آپ نے نظریں جھکائے قرآنی حکم “قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ” کو تھامے اس پوزیشن ہولڈر بہن کو پرائز دے دیا۔
اب یہاں سے اگلی کہانی شروع ہوئی، کچھ بغض کے مارے لوگوں نے سعد بھائی کے اس عمل کو پی ٹی آئی کے جلسوں سے تشبیہ دینا شروع کر دی، تف ہے ویسے ایسی تشبیہ اور سوچ پر ! کچھ کہنے لگے کہ سعد رضوی وہاں گئے ہی کیوں ؟ خیر جتنے منہ اتنی باتیں
اب میرا یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا اس ایونٹ کی آرگنائزر تحریک لبیک پاکستان تھی؟؟ تو اسکا جواب ہے، ہرگز نہیں
پھر جب ایک تقریب تحریک لبیک کی سرپرستی میں ہوئی ہی نہیں (چاہے وہ مخلوط ہو یا نہیں) تو اسکا ذمہ دار حافظ سعد حسین رضوی یا تحریک لبیک پاکستان کو ٹھہرانا صرف اور صرف اپنے بغض کا اظہار ہے اور کچھ نہیں! جبکہ تحریک لبیک پاکستان مخلوط محافل کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور تحریک کا کوئی بھی ایونٹ کبھی مخلوط نہیں ہوا، عرس ہو یا کانفرنس جہاں مرد ہیں وہاں فقط مرد ہی ہوں گے اور جہاں خواتین ہوں وہاں فقط خواتین ہی ہوں گی۔
دوسرا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ سعد رضوی وہاں کیوں گئے؟ سعد رضوی ایک سیاسی و مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں، انکو جہاں خطاب کی دعوت دی جائے گی اگر انکو کوئی مجبوری درپیش نہ ہو تو وہ ضرور جائیں گے، بہرحال لبرل طبقے کے ہجوم میں کھڑے ہو کر ایک داڑھی پگڑی والا اقبال سناتے ہوئے شرعی احکام کھول کھول کر بیان کر رہا ہے تو اس میں عجب کیا ؟ اگر سعد رضوی نہ جاتے تو کوئی پروفیسر چلا جاتا جو اقبال کو خودی تک محدود کر کے نوجوانوں کو اسی بند گلی میں گھماتا رہتا! معترضین سے میری عرض ہے کہ آپ اپنا اصل درد بتائیے تاکہ پھر اسکے مطابق آپکو دندان شکن جواب دیا جائے۔ سعد رضوی وہاں کیوں گئے، اس سوال کو چھوڑیے
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اللہ کریم ہمیں حضورﷺ کی محبت عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
تحریر: آبرو راجپوت